برطانوی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کی شریک مصنفہ بشریٰ تسکین نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے متعلق اپنی تازہ رپورٹ میں مزید سنسنی خیز اور بحث طلب معلومات شامل کی ہیں، جنہوں نے پاکستان کے سیاسی و سماجی حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔
رپورٹ میں پیش کیے گئے نکات مختلف ذرائع، سابق حکومتی شخصیات، اہل خانہ کے قریبی افراد اور سیاسی مبصرین کے حوالوں سے بیان کیے گئے ہیں، جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان میں سے کئی دعوؤں کی تردید کرتی آئی ہے۔
عمران خان کی زندگی کے موڑ اور سیاست میں داخلہ
بشریٰ تسکین کے مطابق 1990 کی دہائی تک کرکٹ، شہرت اور عالمی شناخت کے باوجود عمران خان اپنی ذاتی زندگی میں خلا محسوس کر رہے تھے۔ 1992 کا ورلڈ کپ انہیں سپر اسٹار بنا گیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ شناخت ان کے لیے بے معنی ہوتی گئی۔ سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ انہوں نے اسی پس منظر میں کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 90 کی دہائی کے آغاز میں بڑی سیاسی جماعتوں نے انہیں شامل کرنے کی کوشش کی، تاہم انہوں نے انہیں ’کرپٹ‘ قرار دے کر تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ سیاسی میدان میں نئے کھلاڑی کے لیے جگہ بنانا آسان نہ تھا؛ صحافی ان سے ملکی پالیسیوں کے بجائے کرکٹ اور نجی زندگی پر سوالات کرتے تھے۔
دھرنے، الزامات اور سیاسی نشیب و فراز
2014 میں عمران خان نے نواز شریف کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا، جس نے سیاسی ماحول میں ہلچل پیدا کی۔ دھرنے کی اجازت نے یہ قیاس آرائیاں بھی جنم دیں کہ شاید اسٹیبلشمنٹ حکومت کی تبدیلی پر غور کر رہی ہے، تاہم تحریک چند ہفتوں بعد کمزور پڑ گئی۔
2016 میں پاناما لیکس کے بعد ایک بار پھر سیاسی مہم تیز ہوئی، مگر نتیجہ خاطر خواہ نہ نکلا، مبصرین سمجھنے لگے کہ عمران خان کا سیاسی عروج شاید ختم ہو چکا ہے۔
ریحام خان سے علیحدگی اور بشریٰ بی بی کا دخول
رپورٹ کے مطابق اس دوران عمران خان کی نجی زندگی بھی اتھل پتھل تھی، خصوصاً ان کی دوسری شادی ریحام خان سے علیحدگی کے بعد۔ اسی عرصے میں ان کی ملاقات پنجاب کے مذہبی خانوادے سے تعلق رکھنے والی بشریٰ مانیکا سے ہوئی، جنہیں صوفی روایت اور روحانی مشاورت میں بااثر سمجھا جاتا تھا۔
رپورٹ کے مطابق بشریٰ مانیکا ابتدائی طور پر ملاقات سے گریزاں تھیں، مگر بعد میں طویل روحانی گفتگوؤں کا سلسلہ شروع ہوا۔ 2017 کے آخر میں ان کی طلاق کے بعد عمران خان سے ان کا نکاح یکم جنوری 2018 کو ہوا، جسے خفیہ رکھا گیا۔ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے نکاح سے پہلے انہیں دیکھا تک نہیں تھا۔
اقتدار، اختلافات اور بڑھتی تنقید
چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی اور عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ رپورٹ کے مطابق اقتدار کے دوران عمران خان کی اہلیہ کا کردار غیر معمولی بحث کا موضوع رہا۔ کابینہ کے بعض اراکین نے الزام لگایا کہ وہ فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی تھیں، تاہم پی ٹی آئی ان دعوؤں کو سیاسی پروپیگنڈا قرار دیتی ہے۔
’روحانی اثرو رسوخ‘ اور متنازع دعوے
رپورٹ میں بعض حلقوں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کے اندر بشریٰ بی بی روحانی رسومات ادا کرتی تھیں، جن کے لیے مبینہ طور پر گوشت، بکرے کا سیاہ سر اور مرغیاں منگوائی جاتی تھیں۔ ایک قصاب نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان اشیا کی ڈلیوری ہوتی تھی، تاہم پی ٹی آئی اسے ’جھوٹ اور کردار کشی‘ قرار دیتی رہی ہے۔
سابق رہنما جہانگیر ترین کے متعلق بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک ڈنر کے دوران بشریٰ بی بی نے سفید لباس پہن کر حاضرین سے کہا کہ’میں سفید پہنی ہوں تاکہ آپ مجھے کالے جادو والی عورت نہ سمجھیں۔‘ رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین اس کے اگلے روز پارٹی چھوڑ گئے۔
کچھ دیگر وزرا کا کہنا تھا کہ وزارتی تقرریاں تک ’چہرہ شناسی‘ کی بنیاد پر ہوتی تھیں۔ بعض مبصرین نے حتیٰ کہ یہ دعویٰ کیا کہ کچھ حساس اداروں کے افراد خفیہ معلومات بشریٰ بی بی کے روحانی پیر تک پہنچاتے تھے، جو انہیں ’روحانی کشف‘ بنا کر عمران خان تک پہنچاتے تھے۔
سیاسی محاذ آرائی اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ
رپورٹ کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بشریٰ بی بی کے کردار سے خوش نہیں تھے، جس نے سول ملٹری تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کیا۔ جب عمران خان نے 2019 میں جنرل عاصم منیر کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹایا، تو اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔
2022 میں تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان اقتدار سے ہٹ گئے۔ انہوں نے کھل کر فوج پر تنقید کی، جس کے بعد سیاسی بحران مزید گہرا ہوا۔ 2023 میں ان کی گرفتاری اور ملک گیر ہنگاموں نے صورتحال کو سنگین بنا دیا۔
بشریٰ بی بی کا سیاسی کردار
رپورٹ کے مطابق 2023 کے لانگ مارچ میں بشریٰ بی بی ٹرک پر مکمل نقاب کے ساتھ نمودار ہوئیں، جو ان کے سیاسی کردار کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی نشانی سمجھا گیا۔ بعد ازاں انہیں بھی حراست میں لے لیا گیا۔
مستقبل کی سیاست اور نئے سوالات
74 سالہ عمران خان جیل میں قید ہیں جبکہ بشریٰ بی بی بھی مشکل حالات میں ہیں، کچھ ساتھی عمران خان کو سخت مؤقف اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں جبکہ بعض کے مطابق بشریٰ بی بی مصالحت کی طرف مائل ہیں۔
عمران خان کے بقول’بشریٰ بی بی نے مجھے کمزور نہیں کیا۔ ان کی بہادری نے مجھے مضبوط کیا ہے۔‘ رپورٹ نے پاکستانی سیاست میں روحانیت، طاقت اور قیادت کے درمیان تعلق پر نئی بحث کا دروازہ کھول دیا ہے، جبکہ پی ٹی آئی اس رپورٹ کو جانبدار، سیاسی اور بے بنیاد قرار دیتی ہے۔