غیرقانونی طور پر بانٹی گئی محکمہ صحت کی سرکاری گاڑیاں کس کے زیر استعمال؟

غیرقانونی طور پر بانٹی گئی محکمہ صحت کی سرکاری گاڑیاں کس کے زیر استعمال؟

پشاور: محکمہ صحت خیبرپختونخوا میں درجنوں پرتعیش سرکاری گاڑیاں غیر مجاز افسران کو غیرقانونی طور پر الاٹ کی گئی ہے۔ محکمہ کے ایک ہی آفیسر بیک وقت 6 سرکاری گاڑیوں کے مزے لینے لگے۔  سینئر افسران سے لے کر مختلف محکموں اور منصوبوں کے اہلکار تک درجنوں افراد قواعد و ضوابط کے برعکس گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں، جبکہ کئی گاڑیاں ریکارڈ سے مکمل طور پر غائب ہیں۔ ڈائریکٹوریٹ کے 188 گاڑیوں میں سے چالیس سے زائد گاڑیاں بانٹی گئی ہے ۔ 

موجود دستاویزات کے مطابق محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل دفتر کے پاس 188 مختلف اقسام کی سرکاری گاڑیاں ہے اور سرکاری گاڑی کا استعمال ڈیوٹی سٹیشن اور گریڈ کے تحت کیا جاتا ہے ، اسی طرح کابینہ ممبران کو سرکاری گاڑیاں محکمہ ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن سابق مشیر صحت کے پاس بھی ڈی جی ہیلتھ دفتر کی گاڑی اے بی 2766 بھی الاٹ کی گئی۔ اسی طرح سیکرٹری ہیلتھ کے پاس 2017 ماڈل ریوو 2768 اور 2012 ماڈل ہنڈا سیوک 1479 موجود ہے، جبکہ سیکرٹری آفس کو دی گئی 2015 ماڈل ویگو 1272 اور 2017 ماڈل گاڑی 2288 کے اصل استعمال کنندہ کے بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی ہے رپورٹ میں جو ازاد ڈیجٹیل کے پاس موجود ہے ۔

چیف پلاننگ افسر کے پاس 2012 ماڈل سوزوکی سویفٹ، سپیشل سیکرٹری کے پی ایس کے پاس 2014 ماڈل کلٹس، جبکہ ایس او جی کے پاس 2015 ماڈل گاڑی موجود ہے۔ سابق ڈپٹی کمشنر ہنگو فضل اکبر کے پاس محکمہ صحت کی 2007 ماڈل لینڈ کروزر پائی گئی، ایف ڈی ایم اے کے ڈپٹی سیکرٹری کے پاس بھی سوزوکی سویفٹ ہے اور سیکرٹری ایف ڈی ایم اے کے پاس بھی 2011 ماڈل سویفٹ موجود ہے۔ ڈاکٹر شاہین آفریدی، ورلڈ بینک پراجیکٹ کے سابق پی ڈی، سابق ڈی جی پی ایچ ایس اے، سابق ایم ڈی ہیلتھ فاؤنڈیشن، گورنر ہاؤس کے ایڈیشنل سیکرٹری، سابق سپیشل سیکرٹری اور محکمہ صحت کے پلاننگ افسر، میئر پشاور زبیر علی، سابق ڈی ایچ او باجوڑ، سابق سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹر یحییٰ، سابق اے سی ایس فاٹا ارباب شہزاد، سابق ڈپٹی سیکرٹری فاٹا کو یہ گاڑیاں دی گئی ہے ، اسی طرح حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے نام پر بھی گاڑی الاٹ کی گئی ہے ،ڈاکٹر عرفان (سیکشن افسر) اور اختر منیر بھی سرکاری گاڑیوں کے استعمال میں ملوث پائے گئے۔

مزید برآں، چار ڈاکٹر دو دو گاڑیاں استعمال کرتے ہوئے سامنے آئے جن میں ڈاکٹر سراج کے پاس کرولا اور سوزوکی سویفٹ، ڈاکٹر فضل مجید، ڈاکٹر عارف کے پاس سویفٹ اور ڈبل کیبن اور ڈاکٹر سیدہ کے پاس بھی دو گاڑیاں ہے۔ اسی طرح 13 گاڑیاں بغیر ضرورت اور اصولوں کے برعکس مختلف ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسرز اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹس  کو الاٹ کی گئیں، جبکہ متعلقہ دفاتر میں پہلے سے گاڑیوں کی دستیابی چیک بھی نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ محکمہ صحت کی دو سرکاری گاڑیاں اے  1422 اور اے  5586 مکمل طور پر غائب ہیں اور ریکارڈ میں موجود نہیں کہ انہیں کس کو الاٹ کیا گیا تھا یا کون استعمال کر رہا ہے۔

میٹرنل، نیو برن اینڈ چائلڈ ہیلتھ ( ایم این سی ایچ ) پراجیکٹ میں بھی گاڑیوں کی سنگین بے ضابطگیاں رپورٹ ہوئی ہیں جہاں 18 گاڑیوں کے علاوہ یو ایس ایڈ کی عطیہ کردہ سنگل کیبن گاڑی، چار سوزوکی آلٹو اور ایک سوزوکی سویفٹ سابق ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز فاٹا کے زیرِ استعمال ہیں اور انہوں نے تاحال یہ گاڑیاں واپس نہیں کیں۔ اسی پراجیکٹ کی مزید دو گاڑیاں اے 9242  ڈاکٹر قاسم کے پاس اور اے اے  1003 ڈاکٹر ہلال خان کے پاس ہے جو ابھی تک واپس نہیں کی گئیں۔ مجموعی طور پر محکمۂ صحت کی گاڑیوں کی الاٹمنٹ میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں، اختیارات سے تجاوز اور قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں سامنے آئی ہیں، جو محکمہ جاتی شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر شاہد یونس کے مطابق انہیں رپورٹ کے بارے علم ہے اور جلد ہی عملدرامد کردیا جائے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *