سپریم کورٹ آف پاکستان کا ہراسانی کی روک تھام کے لیے اہم فیصلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان کا ہراسانی کی روک تھام  کے لیے اہم فیصلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے دفاتر، پبلک مقامات اور کام کرنے والی جگہوں پر جنسی ہراسانی سے متعلق لیڈی ڈاکٹر سدرہ سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر درخواست کو خارج کرتے ہوئے، جنسی ہراسانی سے متعلق آئی ایل اوکنونشن اور ملکی قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی ہدایت کی ہے۔

جمعرات کو جسٹس منصور علی شاہ نے معروف لیڈی ڈاکٹر سدرہ کے ہراسانی کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کو خارج کرتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ دفاتر اور کام کرنے والی دیگر جگہوں میں لاکھوں لوگ ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں جن میں خصوصاً خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعلیٰ کا ملاکنڈ یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کا نوٹس، پولیس کی نگرانی میں کمیٹی قائم

دنیا بھر کی عدالتوں نے اپنے قومی قانونی فریم ورک کے اندر ان اصولوں کی تشریح کرکے کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف قوانین کو نافذالعمل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  امریکی سپریم کورٹ نے شہری حقوق ایکٹ 1964 کے عنوان 7 کے تحت جنسی ہراسانی کو جنسی امتیاز کی ایک شکل کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔

c.p._2541_2023 (1) (1) by Iqbal Anjum on Scribd

جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے تاریخی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کام کی جگہ پر ہراسانی کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ کینیڈا کی سپریم کورٹ نے جنسی ہراسانی کو کینیڈین ہیومن رائٹس ایکٹ کے تحت جنسی امتیاز کے طور پر تسلیم کیا اور فیصلہ دیا کہ ہراسانی طاقت اور مخصوص جنس کو کنٹرول کے بارے میں ہے جبکہ یہ کسی جنسی توجہ کے بارے میں رویے کا نام نہیں ہے۔

انہوں نے جنوبی افریقہ کی آئینی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی افریقہ کی آئینی عدالت نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ کام کی جگہ پر ہراسانی اور صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام کرے، اور حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ملکی قوانین ملازمت کی جگہوں پر جنسی تشدد کے خلاف مرد وخواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:سائبر کرائمز: آن لائن جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ میں ملوث ملزم گرفتار

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ 2010کا ایکٹ اور ترمیمی ایکٹ آئینی اور بین الاقوامی قانونی اصولوں کے ساتھ ہراسانی کے واقعات کی بیخ کنی کے لیے مضبوط فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ تاہم ان قوانین کے اثرات مضبوط عدالتی احکامات کے نفاذ پر منحصر ہیں۔

انہوں نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ مذکورہ بالا قوانین اور حوالہ جات کی روح سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوری کیس کو دیکھتے ہوئے لیڈی ڈاکٹر سدرہ کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست گزار کے فاضل وکیل کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کا فیصلے میں واضح جواب دیا گیا ہے۔ مذکورہ فیصلے میں کسی عدالتی غلطی، غیر قانونی یا طریقہ کار میں بے قاعدگی کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں، گلوبل جینڈر گیپ انڈکس 2024 کے مطابق دنیا کے 146 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 145 نمبر ہے۔

انہوں نے فیصلے میں لکھا کہ درج بالا پس منظر میں عدالت کا ماننا ہے کہ متنازع  فیصلہ کسی مداخلت کا متقاضی نہیں ہے۔ لہٰذا اس درخواست پر مقدمے کو جاری نہیں رکھا جا سکتا اس لیے یہ درخواست خارج کر دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ، چیف جسٹس یحیحی آفریدی نے متعدد انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل نو کر دی

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کام کی جگہ پر ہراسانی کے واقعات کے خاتمے کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی قوانین سے متعلق فریم ورک پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے فیصلے میں لکھا کہ اگرچہ 2010 کا ایکٹ اور ترمیمی ایکٹ مزدوروں یا دفاتر میں کام کرنے والوں کو ہراسانی کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک بنیاد فراہم کرتے ہیں، لیکن ملک نے ابھی تک آئی ایل او کے تشدد اور ہراسانی سے متعلق کنونشن کی توثیق نہیں کی ہے جو کام کی جگہ پر ہراسانی کی روک تھام، اس سے نمٹنے، ایسے افراد کی بیخ کنی اور وقار اور احترام  کے ماحول کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع عالمی معیار مقرر کرتا ہے۔

 جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ آئی ایل او تشدد اور ہراسانی کنونشن کی توثیق سے پاکستان کے وقار، مساوات اور عدم امتیاز کی آئینی ضمانتوں کو تقویت ملے گی، کارکنوں خاص طور پر خواتین اور پسماندہ گروہوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے میں مدد ملے گی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کو بھی برقرار رکھنے میں مدد ملے گا۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ کے نئے 6 مستقل ججز اور ایک قائم مقام جج نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا

انہوں نے اپنے فیصلے میں ہدایت کی کہ اس فیصلے کی کاپی اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھیجی جائے تاکہ متعلقہ حلقوں کے ساتھ آئی ایل او تشدد اور ہراسانی کنونشن کی توثیق کے حوالے سے اس فیصلے میں دی گئی سفارشات پر غور کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی لیڈی ڈاکٹر سدرہ نے اپنے ڈرائیور کے خلاف ہراسانی کے معاملے پر محتسب پنجاب سے رجوع کیا تھا، جس پر ڈرائیور محمد دین کو جبری ریٹائرمنٹ کی سزا دی گئی تھی، ڈرائیور نے گورنر پنجاب کو ریپریزنٹیشن بھیجی جو مسترد کر دی گئی تھی، لاہور ہائیکورٹ نے بھی جبری ریٹائرمنٹ کے خلاف درخواست مسترد کر دی تھی۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *