وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے معاونِ خصوصی مشرف زیدی نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اب ملک کے لیے ایک سیکیورٹی خطرہ بن چکے ہیں اور بدلتی ہوئی علاقائی و داخلی صورتحال کے تناظر میں ریاستی ترجیحات میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔
بدھ کو برطانوی نشریاتی ادارے اسکائی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ عمران خان کا متعدد بار ڈاکٹر فیصل سلطان کے ساتھ طبی معائنہ ہوا ہے، تاہم یہ تاثر درست نہیں کہ عمران خان کا کوئی ذاتی ڈاکٹر موجود ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان کا طبی معائنہ فوجی ڈاکٹروں نے نہیں کیا بلکہ سول میڈیکل نظام کے تحت جانچ پڑتال کی گئی۔
انٹرویو کے دوران میزبان یلدا حکیم کی جانب سے عمران خان کے حق میں کی گئی پرانی ٹوئٹس دکھائے جانے پر مشرف زیدی نے کہا کہ حالات بدل چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت، ایران اور افغانستان کی جانب سے درپیش سنگین سیکیورٹی چیلنجز کے بعد ریاستی ترجیحات تبدیل ہوئی ہیں اور انہی حالات میں عمران خان اندرونی طور پر سیکیورٹی رسک بن چکے ہیں۔
مشرف زیدی نے عمران خان کی جیل میں ملاقاتوں کی تفصیلات بھی بتائیں اور قیدِ تنہائی کے دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کے مطابق عمران خان کی اپنی بہنوں کے ساتھ مجموعی طور پر 137 ملاقاتیں ہوئیں، جن میں علیمہ خان سے 45، عظمیٰ خان سے 49 اور نورین خان سے 43 ملاقاتیں شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال کسی بھی طور قیدِ تنہائی کی عکاسی نہیں کرتی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ عمران خان کے وکلا کے ساتھ 451 ملاقاتیں ہو چکی ہیں، جبکہ وہ تقریباً 860 دن سے قید میں ہیں اور اس دوران ان کے 870 انٹرویوز ہو چکے ہیں، حالانکہ قواعد کے مطابق ان کے لیے ہفتے میں صرف ایک ملاقات کی اجازت ہے۔
مشرف زیدی نے جمائمہ گولڈ اسمتھ کی جانب سے ایلون مسک کو کی جانے والی شکایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دعویٰ بھی حقائق کے برعکس ہے کہ عمران خان قید میں ہونے کے باعث ٹوئٹ نہیں کر سکتے۔ ان کے مطابق عمران خان نے دورانِ قید 775 ٹوئٹس کیے ہیں، حالانکہ پاکستان کے قانون کے تحت کوئی بھی قیدی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔
مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اپنے بچوں سے ملاقات کرنے یا بات کرنے پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے، اس لیے ان تمام حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ عمران خان کے معاملے پر پھیلائی جانے والی کئی باتیں زمینی حقائق کے برعکس ہیں اور ریاست کو موجودہ حالات میں قومی سلامتی کو اولین ترجیح بنانا ناگزیر ہے۔