حکومت نے موجودہ 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی مدت ختم ہونے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مستقل طور پر چھٹکارا پانے کے لیے ایک قابلِ عمل اور دیرپا حکمتِ عملی تیار کرنے پر مشاورت شروع کر دی ہے۔ اس اقدام کا مقصد قومی سطح پر ہم آہنگ اصلاحات کے ذریعے مستقبل میں کسی نئے پروگرام سے بچنا ہے۔ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام ستمبر 2027 میں ختم ہو جائے گا۔
آئی ایم ایف کے بغیر معیشت چلانے کی صلاحیت کا جائزہ
میڈیا رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ آیا پاکستان آئی ایم ایف کے تحفظاتی دائرے کے بغیر اپنی معیشت کو سنبھال سکتا ہے یا نہیں؟۔ اجلاس میں مالی اور بیرونی شعبے کے مضبوط تحفظاتی انتظامات کو ناگزیر قرار دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق احسن اقبال کی سربراہی میں پلاننگ کمیشن کی تشخیص میں کہا گیا ہے کہ اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں، جن میں زرمبادلہ کے وافر ذخائر اور برآمدات بڑھانے کے لیے مکمل صنعتی ویلیو چینز کی تشکیل شامل ہے، تو پاکستان کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑ سکتا ہے۔
وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ ’ اگر ہمیں موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کو آخری بنانا ہے تو 2029 تک برآمدات کو 63 ارب ڈالر تک لے جانا ہو گا، بصورت دیگر بیرونی شعبے میں خلا پیدا ہو جائے گا‘۔
بیرونی مالی ضروریات اور ممکنہ دباؤ
رپورٹ کے مطابق جب معیشت استحکام سے ترقی کے مرحلے میں داخل ہو گی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ عارضی طور پر جی ڈی پی کے 2 فیصد سے کم، یعنی سالانہ 10 ارب ڈالر سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں 2027-28 میں 4 ارب ڈالر، 2028-29 میں 5.5 ارب ڈالر اور 2029-30 میں مزید 3 ارب ڈالر کی اضافی مالی معاونت درکار ہو گی۔
آئی ایم ایف کے بغیر بقا ممکن، مگر اصلاحات شرط
پلاننگ کمیشن کا ماننا ہے کہ فوری اور گہری اصلاحات کی صورت میں پاکستان نہ صرف آئی ایم ایف کے بغیر خود کو سنبھال سکتا ہے بلکہ 2028 سے 2030 کے دوران 12 ارب ڈالر سے زیادہ کی بیرونی مالی ضروریات بھی پوری کر سکتا ہے۔ اس خلا کو 4 ارب ڈالر اضافی برآمدات، 4 ارب ڈالر زیادہ ترسیلاتِ زر، 3 ارب ڈالر نئی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور زرعی درآمدی متبادل کے ذریعے پورا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
27ویں آئی ایم ایف پروگرام سے بچاؤ کی حکمتِ عملی
میڈیا رپورٹ کے مطابق اگر مضبوط مالی اور بیرونی تحفظاتی انتظامات کیے جائیں تو پاکستان 27ویں آئی ایم ایف پروگرام سے بچ سکتا ہے۔ تاہم اس وقت کمزور ذخائر اور زیادہ مالی دباؤ کے باعث معیشت غیر محفوظ ہے۔ پلاننگ کمیشن نے پورے حکومتی ڈھانچے کی اصلاحاتی ذمہ داری پر زور دیا اور 14 ارب ڈالر کے قلیل مدتی دوطرفہ قرضوں کو طویل مدتی قرضوں میں تبدیل کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔
حکومتی مؤقف پر خاموشی
وزارتِ خزانہ کے ترجمان نے اس سوال پر کوئی جواب نہیں دیا کہ آیا وہ پلاننگ کمیشن کی بیرونی مالی ضروریات اور قلیل مدتی قرضوں کی مدت بڑھانے کی تجویز سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں۔
معاشی ماڈلز پر بڑھتی بحث
ملکی معیشت کے طویل مدتی استحکام پر بحث اس وقت تیز ہوئی جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل کی جانب سے موجودہ معاشی ترقی کے ماڈلز کی مؤثریت پر سوالات اٹھائے گئے۔ یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ حکومتی منصوبے میکرو اکنامک سطح پر نمایاں نتائج کیوں نہیں دے پا رہے اور پاکستان اب بھی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی قرض دہندگان پر انحصار کیوں کر رہا ہے۔
تین مرحلوں پر مشتمل اصلاحاتی منصوبہ
پلاننگ کمیشن نے تین سطحی نفاذی منصوبہ تجویز کیا ہے۔ پہلا مرحلہ 2027 تک ہو گا جس میں مالی نظم و نسق، توانائی، گورننس، انسانی وسائل کی ترقی اور برآمداتی ہم آہنگی پر توجہ دی جائے گی۔
درمیانی مدت میں سرمایہ کاری پر زور
دوسرا مرحلہ 2029 سے 2032 تک محیط ہو گا، جس میں سرمایہ کاری کو ترقی کا محرک بنانے، صنعت کاری، برآمدات میں توسیع، ٹیکنالوجی کے فروغ اور زرعی جدید کاری پر بھرپور توجہ دی جائے گی۔
ٹیکنو معیشت کی جانب پیش رفت
تیسرے مرحلے میں اعلیٰ معیار کی ترقی کے محرکات کے ذریعے ٹیکنو اکانومی کی تشکیل پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
’اُڑان پاکستان‘ منصوبہ اور تنقید
رپورٹ کے مطابق پلاننگ کمیشن کا خیال ہے کہ اس کا 10 سالہ ’اُڑان پاکستان‘ منصوبہ مہنگائی کو قابو میں رکھنے، 6 فیصد سے زیادہ معاشی ترقی برقرار رکھنے اور برآمدات بڑھا کر بیرونی تحفظاتی ذخائر بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ تاہم اس منصوبے کو عملی پہلوؤں کی کمی پر تنقید کا سامنا ہے، حالانکہ اس میں 2035 تک پاکستان کو 1 ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
وزیراعظم کی ہدایت
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے پلاننگ کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ نتائج پر مبنی حکمتِ عملی تیار کرے تاکہ پالیسی منصوبوں کو عملی کامیابی میں بدلا جا سکے اور آئی ایم ایف پر انحصار مستقل طور پر ختم ہو۔
سرمایہ کاری، روزگار اور انسانی ترقی کے مسائل
کمیشن کی تشخیص کے مطابق سرکاری اور نجی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری ناکافی ہے اور منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ 2000 کے بعد سے معاشی ترقی کی اوسط 3.9 فیصد رہی جو علاقائی ممالک کی 6 فیصد شرح سے کم ہے۔
بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو 2020-21 میں 47 لاکھ سے بڑھ کر 2024-25 میں تقریباً 60 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، جبکہ انسانی ترقی کے اشاریے میں پاکستان 193 ممالک میں 168ویں نمبر پر ہے۔
عدم مساوات اور سرمایہ کاری کی ضرورت
علاقائی عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوا ہے، حالانکہ 18ویں آئینی ترمیم اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت وسائل کی منتقلی کی گئی۔ پلاننگ کمیشن کے مطابق پائیدار ترقی کے لیے جی ڈی پی کے 20 فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری درکار ہے، جبکہ اس وقت یہ شرح تقریباً 14 فیصد ہے۔
برآمدات اور ٹیکس نظام میں اصلاحات
تشخیص میں بتایا گیا کہ اس صدی میں پاکستان کی برآمدات صرف 4.1 گنا بڑھی ہیں، جبکہ ویتنام کی برآمدات گزشتہ 24 برسوں میں 26 گنا بڑھیں۔ رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں ٹیکس کی بلند شرحیں، جن میں زیادہ آمدن والوں پر 45 فیصد ٹیکس شامل ہے، کاروباری سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں اور انہیں معقول بنانے کی ضرورت ہے۔
گورننس اصلاحات ناگزیر
پلاننگ کمیشن نے زور دیا کہ صنعتی اور خدماتی شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانا، گورننس کے نظامی مسائل حل کرنا اور مالیاتی لیکیجز کو روکنا میکرو اکنامک اہداف، پائیدار ترقی اور برآمدات میں اضافے کے لیے ناگزیر ہے۔