توشہ خانہ ٹو کیس، عمران خان ، بشریٰ بی بی پر الزامات کی تفصیلات جاری

 توشہ خانہ ٹو کیس، عمران خان ، بشریٰ بی بی پر الزامات کی تفصیلات جاری

اسلام آباد اسپیشل کورٹ سینٹرل ون کی جانب سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کیس ٹو میں 10۔10 سال قید کی سزا سنائی ہے، مقدمے میں الزامات کی تفصیلات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔

توشہ خانہ ٹو کیس میں استغاثہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف دائر ریفرنس سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ عوامی اعتماد میں خیانت اور بدعنوانی کے سنگین الزامات پر مبنی ہے۔ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سرکاری تحائف ریاستی ملکیت ہوتے ہیں اور توشہ خانہ کے قواعد کا مقصد بالخصوص اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز افراد کو عوامی منصب کے ذریعے ذاتی فائدہ اٹھانے سے روکنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:توشہ خانہ ٹو کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کو 17، 17 سال قید، 1کروڑ روپے جرمانے کی سزا

کیس کے آفیشل جائزے کے مطابق توشہ خانہ کے قواعد کے تحت تمام سرکاری تحائف ریاستی ملکیت ہوتے ہیں اور ان قواعد کا مقصد عوامی عہدے کے ذریعے ذاتی فائدہ حاصل کرنے سے روکنا ہے۔ یہ کیس مئی 2021 میں موصول ہونے والے ایک بلغاری جیولری سیٹ کو توشہ خانہ میں جمع نہ کرانے، دانستہ کم قیمت لگوانے اور غیر قانونی طور پر ذاتی تحویل میں رکھنے کے الزامات سے متعلق ہے۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ کیس نہ مبہم ہے اور نہ ہی ماضی پر لاگو قانون پر مبنی، کیونکہ اس پر توشہ خانہ طریقہ کار 2018 کا اطلاق ہوتا ہے جو اس وقت نافذ العمل تھا۔ ریکارڈ میں واضح کیا گیا ہے کہ 2023 کی ترامیم پر انحصار نہیں کیا جا رہا، یوں سابقہ قانون کے اطلاق پر اعتراض ابتدا ہی میں ختم ہو جاتا ہے۔

یہ مقدمہ اسلام آباد اسپیشل کورٹ سینٹرل ون میں زیرِ سماعت رہا ہے، جو ایف آئی اے ایکٹ کے تحت مقدمات کی سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔ الزامات میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 409 کے تحت سرکاری اہلکار کی جانب سے اعتماد میں خیانت، دفعہ 109 کے تحت اعانتِ جرم اور انسدادِ بدعنوانی ایکٹ 1947 کی دفعہ 5(2) کے تحت مجرمانہ بدعنوانی شامل ہیں۔

قانونی فریم ورک

استغاثہ کے مطابق اس کیس پر توشہ خانہ طریقہ کار 2018 کا اطلاق ہوتا ہے، جو 2021 میں موصول ہونے والے تحائف کے لیے نافذ تھا۔ 2023 کی ترامیم پر انحصار نہیں کیا جا رہا، جس سے سابقہ قانون کے اطلاق سے متعلق اعتراضات کا ازالہ ہوتا ہے۔ 2018 کے طریقہ کار کی کلاز ون کے تحت ہر تحفہ، چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو، فوری طور پر رپورٹ اور جمع کرانا لازم ہے، جبکہ عدم جمع آوری کی صورت میں جانچ اور قانونی کارروائی لازم ہو جاتی ہے۔

مرکزی الزام یہ ہے کہ بلغاری جیولری سیٹ کو جان بوجھ کر ’فریکلی‘ (باقاعدہ ) طور پر توشہ خانہ میں جمع نہیں کرایا گیا تاکہ اصل ویلیوایشن سے بچا جا سکے اور کم قیمت لگوانے کا راستہ ہموار کیا جائے۔

جرائم کی نوعیت

دفعہ 409 پی پی سی کے تحت استغاثہ کا کہنا ہے کہ یہ تحفہ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے سرکاری طور پر موصول ہوا اور مبینہ طور پر ذاتی فائدے کے لیے اپنے پاس رکھا گیا۔ دفعہ 109 پی پی سی کے تحت اعانتِ جرم کا الزام ان افراد سے متعلق ہے جنہوں نے مبینہ طور پر کم قیمت لگوانے اور غیر قانونی تحویل میں مدد فراہم کی۔ انسدادِ بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 5(2) کے تحت اس طرزِ عمل کو اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے مالی فائدہ حاصل کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

دفعہ 409 پی پی سی کے تحت استغاثہ نے سرکاری حیثیت میں امانت سپرد ہونے اور مبینہ طور پر عدم جمع آوری کے ذریعے ذاتی فائدہ حاصل کرنے کی نشاندہی کی ہے۔ ریکارڈ میں اسے عہدے سے سنگین خیانت قرار دیا گیا ہے، جس پر قانون سختی سے گرفت کرتا ہے۔

شواہد اور توثیق

تحقیقات کے مطابق استغاثہ کا مقدمہ کسی ایک گواہ پر منحصر نہیں بلکہ متعدد ذرائع سے حاصل شواہد پر مبنی ہے۔ ریکارڈ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ جیولری کو فریکلی(باقاعدہ) طور پر جمع کرائے بغیر توشہ خانہ رجسٹر میں درج کیا گیا، جسے ایک سنگین طریقہ کار کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

استغاثہ نے نجی ویلیوایٹر کے کردار پر بھی سوال اٹھایا ہے، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ تسلیم شدہ ماہر نہیں تھا اور مبینہ ہدایات کے تحت جیولری کی قیمت کم لگائی گئی۔ اس کے علاوہ پاکستان کسٹمز کے سرکاری ویلیوایٹرز پر الزام ہے کہ انہوں نے نہ تو اس سیٹ کا فزیکلی معائنہ کیا اور نہ ہی زیورات کی قیمت لگانے کی مہارت رکھتے تھے، بلکہ فراہم کردہ قیمت فہرست پر انحصار کیا، جسے آزاد ویلیوایشن کے بجائے غیر قانونی توثیق قرار دیا گیا ہے۔

کیس کا ایک اہم پہلو وزارتِ خارجہ کے ذریعے حاصل کی گئی باہمی قانونی معاونت بھی ہے۔ استغاثہ کے مطابق بلغاری اٹلی نے 2 اشیا کی نشاندہی کرتے ہوئے 300,000 یورو اور 80,000 یورو کی انوائس قیمتوں کی تصدیق کی ہے، جو کم قیمت لگانے کے دعوؤں کے خلاف ایک آزاد اور بیرونی معیار فراہم کرتی ہے۔

قومی خزانے کو مالی نقصان

کیس ریکارڈ کے مطابق کم قیمت لگانے اور اصل قیمت غلط ظاہر کرنے کے باعث قومی خزانے کو 32,851,300 روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ ہار اور بالیوں کی قیمت بالترتیب 1,359,000 روپے اور 275,000 روپے لگائی گئی، جبکہ ان کی اصل مساوی مالیت 71,561,600 روپے بتائی گئی ہے۔ استغاثہ کے مطابق اس عمل کے پیچھے ذاتی اور غیر قانونی محرکات کارفرما تھے، جو مجرمانہ نیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

عدالتی کارروائی اور شفاف عمل

یہ مقدمہ 21 نومبر 2024 سے زیرِ سماعت ہے اور تقریباً 15 ماہ کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے۔ کیس کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کو منصفانہ سماعت کا مکمل موقع دیا گیا۔ ایف آئی اے نے ضابطہ فوجداری کے تحت تمام تقاضے پورے کیے، جن میں دفعہ 160 کے نوٹس، دفعہ 161 کے بیانات، نیب کے سابقہ بیانات پر انحصار اور دفعہ 164 کے تحت وعدہ معاف گواہ کا بیان شامل ہے۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے بھی تمام قانونی اور آئینی تقاضوں پر عمل کیا اور دفاع کو مناسب وقت دیا، جبکہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت منصفانہ ٹرائل کے حق کو مکمل طور پر یقینی بنایا گیا۔

پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 409 کے تحت سزا نہایت سخت ہے، جس میں عمر قید یا 10 سال تک قید اور جرمانہ شامل ہو سکتا ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ قانون عوامی عہدے دار کی جانب سے اعتماد میں خیانت کو کس قدر سنگین جرم سمجھتا ہے۔

استغاثہ کے مطابق عمران خان اور بشریٰ عمران کے خلاف کیس مبینہ طور پر تحفہ جمع نہ کرانے، کم قیمت لگوانے کی منصوبہ بندی، اختیارات کے ناجائز استعمال، مالی نقصان کی واضح مقدار اور بین الاقوامی تصدیق پر مبنی ہے۔

جائزے کے اختتام پر کہا گیا ہے کہ توشہ خانہ ٹو کیس واضح قانونی ذمہ داریوں، مخصوص لین دین، ملکی و غیر ملکی شواہد، مالی نقصان کی مقدار اور منصفانہ عدالتی عمل پر مبنی ہے، اور اسے سیاسی انتقام کے بجائے احتساب کا معاملہ قرار دیا گیا ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *