خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن نے سنی اتحاد کونسل (تحریک انصاف) حکومت پر12ہزار مسلح افراد کو صوبے میں لانے، دہشتگردوں کی حمایت کرنے اور انہیں یہاں دفاتر دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے طالبان کو بھتہ دینے کا اعتراف کیا ہے۔
حکومت کی10سالہ کارکردگی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپوزیشن نے صحت کارڈ، بلین ٹری سونامی، بی آر ٹی، تعلیم اور دیگر منصوبوں میں اربوں روپے کی کرپشن کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کر دیا۔صوبائی اسمبلی میں مالی سال2023-24بجٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن لیڈرڈاکٹرعباد اللہ نے کہاکہ بجٹ بہت ہی مبہم ہے ایک جانب صوبے کے پاس فنڈنہیں ہے تو دوسری جانب مشیر خزانہ بجٹ کو سرپلس قرار دے رہے ہیں انہیں بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کس کی بات پر یقین کریں وزیر اعلیٰ کا حلقہ نو گو ایریا بن چکا ہے قبائیلی اضلاع میں کرایہ کی عمارت میں پولیس سٹیشن قائم ہیں۔ شدت پسندی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا حکومت کو ملنے والی ایک ہزار ارب روپے کہاں کہاں خرچ ہوئے امن و امان کی حالت اس قدر ابتر ہو چکی ہے کہ دن دیہاڑے سیشن جج کو اغواء کیا جاتا ہے اور ان کی رہائی کے بدلے صوبائی حکومت کو کروڑوں روپے کا معاؤضہ اداکرنا پڑتا ہے جس سے ظاہر ہورہا ہے صوبائی حکومت دہشتگردوں کی حمایت کر رہی ہے۔کہ وہ اسلحہ خریدکر عوام کو اس سے نشانہ بنائے تو پھر حکومت سے امن وامان بارے کیسے توقع رکھ سکتے ہیں اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ وزیراعلیٰ اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ بھتہ دیتے ہیں۔صحت کارڈ کا بہت چرچہ ہے بجٹ میں اس کیلئے رقم کی مطالبہ کیا گیا اس پر جو اربوں روپے لگ چکے ہیں اس کا کوئی آڈٹ ہے؟ میرے پاس معلومات ہیں کہ صحت کارڈ میں ہزاروں جعلی رجسٹریشن ہوئی ہیں نجی ہسپتال میں لوگوں کاعلاج ہورہاہے صرف ایک گاؤں میں 148اپنڈکس کی سرجری ہوئیں لیکن اس میں بھی اموات ہوئی ہیں سرکاری ہستالوں، بی ایچ یو،ٹی ایچ کیوزمیں ڈسپرین تک نہیں ملتی عمران خان کے کزن نوشیروان برکی کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے صحت نظام اور ہسپتالوں کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ایم ٹی آئی کے باعث یہاں کے تربیت یافتہ لوگ صوبہ چھوڑکرباہریادیگرصوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔صوبے کی 80فیصد یونیورسٹیاں بغیرسربراہ کے چل رہی ہیں۔
ڈبل شفٹ کے اساتذہ رل رہے ہیں انہیں تنخواہیں نہیں مل رہیزلزلہ زدہ اضلاع میں پندرہ سال بعدبھی بچے ٹینٹ میں پڑھنے پرمجبورہیں۔ پہلی بار میاں نوازشریف نے90کی دہائی میں بجلی خالص منافع کی مد میں 6 ارب روپے دئیے تھے جس کی وجہ سے بجٹ سرپلس ہواعمران خان دورحکومت میں سی سی آئی میں چارممبرزپی ٹی آئی کے تھے بتایاجائے چارسالوں میں صوبے کیلئے کتنی رقم آئی۔ 93ء میں بجلی یونٹ دوتین روپے کا تھا آج26روپے کا ہے اے جی این فارمولے کے تحت بجلی یونٹ پر سٹیلمنٹ کیوں نہیں ہوئی۔ پانی،معدنیات، سیاحت،جنگلات ہونے کے باوجود ون وہیل سسٹم کس نے ختم کیا؟پانی سے بجلی پیدا کرکے آگے بیچ سکتے تھے لیکن پی ٹی آئی حکومت ہائیڈل سے سولر پر چلی گئی انضمام کے بعد2018ء میں ملاکنڈڈویژن کو ٹیکس استثنیٰ ملا پانچ سالوں میں ڈیویزبل پول سے 400ارب روپے بنتے ہیں۔