خیبر پختونخوا میں ادویات سکینڈل، خزانے کو اربوں کا ٹیکہ، ذمہ دار کون؟

خیبر پختونخوا میں ادویات سکینڈل، خزانے کو اربوں کا ٹیکہ، ذمہ دار کون؟

(تیمور خان)

خیبر پختونخوا میں ادویات خریداری کی مد میں خزانے کو دو ارب روپے کا ٹیکہ لگانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ادویات خریداری کے لیے منتخب ہونی والے کمپنیاں اور 13سو آئٹمز میں سے 14 فرمز سے 10 غیر ضروری اور بلا ضرورت خریداری کی گئی ہے۔ حیران کن طور پر فنڈز نہ ہونے کے باوجود محکمہ صحت نے 4 ارب 40 کروڑ روپے کے آرڈرز دے کر3 ارب 17 کروڑ کی ایڈوانس ادائیگی بھی کر دی ہے لیکن 1 ارب 90 کروڑ کے آئٹمزغائب ہے۔ صوبائی حکومت نے 13 ملازمین کے خلاف کارروائی کا آغاز بھی کر دیا جنہیں جلد ہی چارج شیٹ کر دیا جائے گا۔

آزاد ڈیجٹیل کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق محکمہ خزانہ نے ایمرجنسی اور ضروری ادویات کی خریداری کے لیے دو قسطوں میں 2 ارب 90 کروڑ روپے ڈی جی ہیلتھ کو جاری کر دئیے ہیں لیکن فنڈز نہ ہونے کے باوجود اس وقت کے ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شوکت علی نے 4 ارب 40 کروڑ روپے میڈیکل آئٹمز کے آرڈرز مختلف کمپنیوں کو دئیے جس میں لاکھوں کنڈوم، گاونز، او ٹی ڈرپ سیٹ، 1 ارب 30 کروڑ 50 لاکھ کے گلوز خریدے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر غیر ضروری آئٹمز بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف ریکارڈ کے مطابق جتنی تعداد میں سپلائی کو ظاہر کیا گیا ہے اتنی تعداد میں مذکورہ آئٹمز موجود نہیں ہیں۔ طریقہ کار کے تحت ادویات کی خریداری ڈی جی ہیلتھ ضلعی ہیلتھ آفیسرز اور ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کی جانب سے ڈیمانڈ پر کرتا ہے لیکن یہاں پر ایسا نہیں ہوا ہے۔

طریقہ کار کے تحت سپلائی پشاور میں موجود سنٹرل سٹور کو ہوتی ہے اور وہاں سے ضرورت کی بنیاد پر ہسپتالوں کو مطلوبہ آئٹمز فراہم کیے جاتے ہیں لیکن کرپشن کو چھپانے کے لیے کمپنیوں کی جانب سے 6 ہسپتالوں کو سپلائی کی گئی ہے جس میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز ہسپتال تیمرگرہ، ڈی ایچ او دیر لوئر، کیٹیگری بی ہسپتال درگئی مالاکنڈ، ڈی ایچ کیو ہسپتال باجوڑ، کیٹگری ڈی ہسپتال متنی پشاور اور ڈی ایچ او شمالی وزیرستان شامل ہے۔ انکوائری کمیٹی کے سامنے ڈی ایچ او شمالی وزیرستان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں سپلائی نہیں ہوئی ہے لیکن ڈی جی ہیلتھ کے ریکارڈ میں سپلائی کو ظاہر کیا گیا ہے۔

ادویات اور دیگر طبی سامان فراہم کرنے والی ایک کمپنی امان فارما کو 5 کروڑ 3 لاکھ روپے ادائیگی ہوئی ہے لیکن ڈرگ ٹیسٹگ لیب نے ان کے آئٹمز کو غیر معیاری قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک کمپنی جس کا وجود ہی نہیں ہے اس کو 25 کروڑ سے زائد کی ادائیگی ہوئی ہے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق اب تک تمام کمپنیوں کی جانب سے 1 ارب 26 کروڑ 80 لاکھ کی سپلائی کی گئی ہے جبکہ 1 ارب 90 کروڑ 45 لاکھ کی سپلائی ہونا باقی ہے۔ تاہم ادائیگی کیلئے متعلقہ سیکشن کو نظر انداز کر کے پبلک ہیلتھ سیکشن کے ذریعے ادائیگی کی گئی ہے۔ قانون کے تحت ادائیگی سے قبل انسپیکشن کمیٹی کی رپورٹ ضروری ہوتی ہے اس کے علاوہ سٹاک ویری فیکشن اور ڈرگ ٹیسٹنگ لیب کی رپورٹ بھی لازمی ہوتی ہے۔ لیکن مذکورہ رپورٹس نہ ہونے کے باوجود بھی 35 چیکس کے ذریعے ادائیگیاں ہوئی ہیں۔

محکمہ صحت کی جانب سے انکوائری مکمل ہونے کے بعد چیف سیکرٹری کو چارج شیٹ کے لیے سمری ارسال کر دی گئی ہے جو اس تمام بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرائے گئے 13 ملازمین جن میں سابق ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شوکت علی، ڈاکٹر ارشاد علی، ڈاکٹر سراج محمد، اکاونٹنٹ فضل دیان، ڈائریکٹر کوالٹی انشورنس زاہد علی خان، ڈائریکٹر ایڈمن مبشر احمد، ڈائریکٹر پروکیورمنٹ محمد اسرار، ڈرگ انسپکٹر ضیاء اللہ، لاجسٹک آفیسر خرم شیراز، کمپیوٹر آپریٹر علی نواز اور زکریا، آفس اسسٹنٹ عمر خطاب اور فارمیسی ٹیکنیشن محمد اسلام شامل ہیں۔ اس بابت سیکرٹری ہیلتھ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں اس پر رائے دینے سے معذرت کردی کہ وہ چھٹیوں پر ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *