سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم کیلئے اسلام آباد میں اس وقت ہنگامہ خیز ماحول ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہے شخصیات کے بجائے اداروں کی اصلاحات پر جائیں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے آئینی عدالت کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کرتے ہیں، میں نے مسودہ سامنے آنے پر بات کرنے کا کہا تھا، لیکن حکومت مسودہ دینے کیلئے آمادہ نہیں ہورہی تھی، اب خدا خدا کر کے ایک کاپی فراہم کی گئی ہے، یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ پیپلزپارٹی یا ہمیں دی کاپی ایک جیسی ہے۔
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانافضل الرحمٰن نے پارلیمانی کمیٹی میں اپنی تجویزبیان کرتے کہا کہ حکومت بغیر تیاری ایوان سے توقع کررہی تھی کہ ہم سے تعاون کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ آئین ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے لیکن یہاں انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کا دائرہ محدود کردیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی دہائیوں سے مفادات کالین دین ہماری سیاست بن گئی ہے لیکن ہم نے نظریات، اصول اور قوم کی آواز کو تقویت دینے کی سیاست کی اور ہر ایسی تجویز کو مسترد کردیا جو مفاد عامہ کے خلاف تھی، ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ آئینی ترمیم کا مقصد صرف حکومت کو تحفظ دینا تھا۔
انہوں نے کہا ہم نے یہ تجویز اس لیے دی کہ آئین میں وفاقی عدالتوں کا تصور ہے، دوسری وجہ سپریم کورٹ میں عام لوگوں کے اس وقت 60 ہزار کیسز زیر التوا ہیں جبکہ پورے ملک میں اس وقت 24 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت میں ساڑھے 3 ہزار روپے کا اضافہ
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ جب ہمیں مسودہ دیا گیا تھا اس وقت تک حکومت کے پاس اکثریت نہیں تھی، ان کا انحصار جے یو آئی اراکین پر تھا۔
مولانافضل الرحمٰن نے کہا کہ بلاول بھٹو سے ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ وہ بھی تجاویز بنائیں ہم بھی مسودہ تیار کرتے ہیں،ہم چاہتے کہ اتفاق رائے پیدا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر ادارے کا اپنا دائرہ کار ہے جسے آئین متعین کرتا ہے اور اگر ہر ادارہ اپنے دائرہ اپنے دائرہ اختیار تک خود کو محدود رکھے گا تو وہ اپنا کردار بڑی خوش اسلوبی سے ادا کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ متبادل تجاویز کے لیے کام شروع کردیا گیا اور کچھ دنوں کے بعد اس کا مسودہ تیار کیا جائے گا، ہمارا آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق رائے موجود ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں حکومت کی بد نیتی نظر آئی کہ آئینی عدالت کی تجویز قبول کرکے بھی وہ عدالتی ڈھانچہ اس طرح تشکیل دے رہے تھے جس سے مخالفین کو دیوار سے لگایا جائے اور اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہم اپوزیشن بینچوں پر ہیں اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) بھی اپوزیشن میں ہے، بہتر ہے پی ٹی آئی اور ہمارا تلخی والا دور ختم ہوتا ہے تو اس پر اگے بڑھنا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر ہم اس کسی اتفاق رائے پر پہنچتے ہیں تو یہ پاکستانی سیاست کے لیے اچھی علامت ہوگی، حکومت نے ایک کاپی پیپلزپارٹی کو اور ایک ہمیں دی،حکومت سے کہا کہ ہمیں آئینی ترمیم کا مسودہ دکھائیں، مسودہ دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں فرق ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کسی قسم کا مسودہ دینے کے لئے تیار نہیں ہورہی تھی۔
مولانا فضل الرحمان نے پھر سے الیکشن کروانے کا مطالبہ کردیا، جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ ہم الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اورہم دوبارہ عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں۔