خیبر پختونخوا میں 11 سال تک مثالی پولیس کا کریڈٹ لینے والی تحریک انصاف حکومت پولیس کو بے اختیار بناتے ہوئے وزیراعلی احکامات پر چیف سیکرٹری کے ذریعے آئی جی دفتر کے آپریشنل اور انتظامی امور چلائے گی۔
آزاد ڈیجیٹل کو موصول ترمیمی مسودے کے مطابق خیبرپختونخواپولیس میں احتساب کے ترمیمی قانونی مسودے کو ایوان میں پیش کیاجائےگا۔ پولیس پوسٹنگ ٹرانسفر کا اختیار آئی جی سے لیکر چیف سیکرٹری وزیر اعلیٰ سے سمری کے ذریعے کرینگے۔ ترمیمی بل کے ذریعے پولیس کارکردگی میں بہتری،عوام کےتحفظ اورحقوق کا مؤثر تحفظ کرنا ہے۔ بل کے تحت صوبے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی اور احتساب کا آزاد نظام قائم کیا جائے گا۔ بل کے ذریعے عوامی شکایات کے ازالے کا ایک موثر طریقہ کار متعارف کیا جائے گا۔ قانون کی حکمرانی کو بہتر بنانے کے زریعےعوام کا اعتماد بحال کیا جائے گا۔ بل کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی میں موجود خامیوں کو دور کیاجائے گا۔
مزید پڑھیں: حکومت نے آئی ایم ایف کو کسی بھی قسم کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہ لانے کی یقین دہانی کروا دی
عوامی شکایات کے ازالے کیلئے ایک شفاف اور غیرجانبدارانہ نظام قائم کیا جائےگا۔پولیس افسر کے خلاف شکایت قانون یا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کو ظاہر کرے گی۔ متعلقہ پولیس افسر شکایت کو ریکارڈ کرےگا۔اگر شکایت ریکارڈ کے قابل نہ ہو تو شکایت کنندہ کو آگاہ کیا جائےگا۔ایف آئی آر درج نہ کرنا، مدد کیلئے کال پر ردعمل نہ دینا،غیر ضروری طاقت کا استعمال، اور بدتمیزی یا توہین آمیز زبان کا استعمال قابل شکایات عمل ہوگا۔ریکارڈ کے قابل شکایات میں وہ واقعات شامل ہونگے جن میں پولیس افسران نے اپنی قانونی یا اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا۔کسی شخص کی پولیس حراست میں موت یا شدید چوٹ پر انکوائری ہوگی۔پولیس کی ناکامی کی وجہ سے کسی کی موت یا چوٹ اور ٹریفک حادثے میں پولیس کے ملوث ہونے پر بھی آزاد انکوائری ہوگی۔
مزید پڑھیں: اے این پی کا آئینی عدالت کی حمایت کے حوالے سے اہم فیصلہ سامنے آگیا
مقامی انکوائری غیرجانبدار پولیس افیسر کرینگے،جس پولیس افسر کے خلاف شکایت کی گئی ہے انکوائری ان کے ماتحت نہیں ہوگی،ہدایت شدہ انکوائری کو اتھارٹی کی رہنمائی میں کیا جائے گا،آزاد انکوائری پولیس اتھارٹی خود کرے گی اور یہ ان کیسز کے لیے مخصوص ہو گی جن میں انسانی جانوں کا ضیاع یا شدید زخمی ہونے کے واقعات شامل ہوں ۔پولیس حراست میں موت یا چوٹ، اور ایسے حادثات جن میں پولیس اہلکار شامل ہوں، آزاد انکوائری کے دائرہ کار میں آئیں گے۔پولیس اہلکاروں پر زمینوں پر قبضہ کرنے یا کسی کو غیر قانونی حمایت فراہم کرنے کا الزام ہو اس کے خلاف بھی آزاد انکوائری ہوگی۔ مقامی اور نگرانی شدہ انکوائری کی صورت میں کارروائی کاحتمی فیصلہ متعلقہ اتھارٹی کرےگی ۔ہدایت شدہ اور آزاد انکوائری کے معاملات میں کارروائی کے لیے پولیس اتھارٹی کی پیشگی منظوری ضروری ہوگیی اگر اتھارٹی اور حکومت کارروائی پر متفق نہ ہو سکیں تو حکومت حتمی فیصلہ کرے گی،حکومت کو اتھارٹی کا مؤقف سننے کا موقع فراہم کیا جائےگا،پولیس اتھارٹی کو یہ اختیارات ہوگا کہ وہ کسی بھی شخص یا پولیس اہلکار سے تفتیش یا ثبوت اکٹھے کرسکے۔انکوائری کے دوران ریکارڈنگ،اتھارٹی حساس معلومات کو خفیہ رکھے گی۔
مزید پڑھیں: ایس سی او کانفرنس، پی ٹی آئی کا ڈی چوک میں احتجاج کا اعلان ملک مخالف ایجنڈاہے، گورنر فیصل کریم کنڈی
اگر انکوائری میں ان معلومات کو بنیاد بنایاگیا ہو تو ان کا ذکر انکوائری رپورٹ میں کیا جائے گا۔پولیس پر لازم ہوگا کہ وہ شکایت کنندہ کو شکایت کے نتائج سے آگاہ کرے اور اسے کسی بھی اپیل کے حق کے بارے میں مطلع کرے۔شکایت ریکارڈ نہ کرنے یا پولیس افسران کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر شکایت کنندہ فیصلے کے خلاف پولیس اتھارٹی میں اپیل دائر کرسکتا ہے۔ پولیس افسران کے خلاف شکایت نہ درج کرنے، اتھارٹی کو شکایت نہ بھیجنے، یا انکوائری روکنے کےفیصلے کے خلاف شکایت کنندہ اپیل کر سکےگا۔ شکایت کنندہ براہ راست وزیراعلیٰ کو بھی شکایت درج کروا سکتا ہے،جو اپنی صوابدید پر فیصلہ کریں گے، بل میں ترامیم کا مقصد پولیس کے پیشہ ورانہ رویے کو بہتر اور قانون کے نفاذ کو مؤثر بنانا ہے۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان نئے قرض پروگرام کی کڑی شرائط سامنے آگئیں
حکومت کو اختیار ہوگا کہ وہ سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے اس ایکٹ کے تحت قواعد وضوابط وضع کر سکے۔حکومت پولیس کے خلاف شکایات کے اندراج اور انکوائری کیلئے اصول جاری کر سکیں گے۔ پولیس اتھارٹی مالی سال کے آخر میں اپنی کارکردگی رپورٹ حکومت کو پیش کرے گی۔ پولیس کارکردگی رپورٹ صوبائی اسمبلی میں تین ماہ کے اندر پیش کی جائے گی۔رپورٹ میں پولیس کی کارکردگی، انکوائریوں کے نتائج، اور پولیس افسران کے خلاف کی گئی کارروائیوں کی تفصیلات شامل ہوں گی۔