اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں 9 مئی کے واقعات میں ملوث سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے واضح کیا کہ 9 مئی کو جرم کا ارتکاب ہوا تھا لیکن کسی کو عدالتی فیصلے میں کلین چٹ نہیں دی گئی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ان ملزمان کا ٹرائل کہاں ہوگا؟
عدالت عظمیٰ کے 7 رکنی آئینی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نےکی، انھوں نے اس حساس معاملے پر سماعت کے دوران اہم ریمارکس دیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر جرم آرمی ایکٹ کے تحت آتا ہے تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے موقف اپنایا کہ آرمی ایکٹ اور اس کے قواعد میں شفاف ٹرائل کا مکمل طریقہ کار فراہم کیا گیا ہے۔ تاہم، جسٹس عائشہ اے ملک نے آرمی ایکٹ کی مخصوص شقوں کو فیئر ٹرائل کے اصولوں کے خلاف قرار دیا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ان شقوں پر کوئی واضح رائے دینے سے گریز کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا 21ویں آئینی ترمیم کے بغیر دہشتگردوں کے خلاف ملٹری ٹرائل ممکن نہیں تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ ترمیم مختلف جرائم کے لیے قانون سازی کا حصہ تھی۔ جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ جرم کی نوعیت غیرمعمولی تھی، جس میں کور کمانڈر لاہور کے گھر اور عسکری تنصیبات پر حملے شامل تھے۔ پہلی بار مختلف شہروں میں ایک ساتھ منصوبہ بندی کے تحت کارروائیاں ہوئیں، جن میں پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت بھی شامل تھی۔ عدالت نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ آئندہ سماعت تک مؤخر کردیا۔