صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 پر دستخط کر دیے۔
صدر مملکت کی منظوری کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ صدر آصف زرداری نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 اور نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (ترمیمی) بل 2025 کی بھی توثیق کر دی۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی نے 23 جنوری کو پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کیا تھا جس کے بعد گزشتہ روز ہی یہ بل سینیٹ سے منظور ہوا تھا۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں 22جنوری کو پیش کیا گیا تھا۔ دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (ترمیمی )بل 2025میں سیکشن 26(اے)کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جس کے تحت آن لائن ’جعلی خبروں‘کے مرتب افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ ترمیمی بل میں کہا گیا کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے، یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے ، جس سے معاشرے میں خوف یا بدامنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال قید اور 20لاکھ روپے تک جرمانے کی یا پھر دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہوگی جبکہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولتکاری کیساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔
پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کے علاوہ متعلقہ اداروں کو غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت دینے کا اختیار رکھے گی۔ سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا شکار فرد کو 24 گھنٹوں کے اندر اتھارٹی سے رابطہ کرنے کی ذمہ داری ہوگی۔ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی میں کل 9 اراکین ہوں گے، جن میں سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا ایکس آفیشو اراکین کے طور پر شامل ہوں گے۔
اتھارٹی کا چیئرمین وہ شخص ہوگا جس کے پاس بیچلرز ڈگری ہو اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سال کا تجربہ ہو۔ چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سال کے لیے کی جائے گی۔حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو بھی نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایکس آفیشو اراکین کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں ایک تجربہ کار صحافی (کم از کم 10 سال کا تجربہ)، سافٹ ویئر انجینئر، وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل اور نجی شعبے سے ایک آئی ٹی ایکسپرٹ شامل ہوں گے۔ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، جس کا چیئرمین ایک سابق ہائی کورٹ جج ہوگا۔ اس ٹربیونل میں صحافی اور سافٹ ویئر انجینئر بھی شامل ہوں گے۔