کیا کسی ممبرپارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی؟ جسٹس امین الدین کا استفسار

کیا کسی ممبرپارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی؟ جسٹس امین الدین کا استفسار

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلیئنز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران استفسار کیا ہے کہ کیا کسی ممبرقومی اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی ہے؟ یا کسی رکن اسمبلی نے آج تک آرمی ایکٹ کے خلاف پرائیوٹ بل پیش کیا ہے؟

یہ بھی پڑھیں:ملٹری کورٹس سے سزائیں آئین وقانون کے مطابق ہوئی ہیں، رانا ثنا اللہ

منگل کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلیئنزکے ٹرائل کے خلاف انٹرکورٹ اپیل پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے شروع کی، سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل عزیر بھنڈاری ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل پیش کیے۔

اپیل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے 7 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا کسی ممبر اسمبلی نے آج تک قومی اسمبلی میں ’آرمی ایکٹ‘ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی، یا کسی رکن اسمبلی نے آج تک ’آرمی ایکٹ‘ کے خلاف پرائیوٹ بل پیش کیا ہے؟

مزید پڑھیں:’جس کا جتنا دل چاہتا ہے، ملک کوبدنام کرتا ہے‘، جسٹس امین الدین کے ریمارکس

سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل عذیر بھنڈاری نے اپنے دلائل شروع کیے تو بینچ کے رکن جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 1962 کے آئین میں ایوب خان کا دور تھا اس وقت لوگوں کو بنیادی حقوق میسر تھے؟

اس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ حقیقت میں اس وقت بھی بنیادی حقوق میسر نہیں تھے، سویلیئنز کی حد تک کریمنل دفعات پرٹرائل عام عدالت ہی کر سکتی ہے، آرڈیننس میں بہت ساری دفعات تھیں جو آرمڈ فورسز کے حوالے سے تھیں۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہاں تعلق سے کیا مراد ہے؟ جس پرعزیربھنڈاری نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آرمی ایکٹ خود کو سبجیکٹ کر سکتا ہے یا نہیں؟ کس قانون کے تحت کیا جا سکتا ہے وہ متعلقہ ہے یا نہیں۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ’ٹو ون ڈی‘ میں سویلیئنزکا تعلق کیسے بنایا گیا ہے؟، جس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ’ٹو ون ڈی‘ کے حوالے سے ایف بی علی میں کچھ نہیں کہا گیا، ٹرائل دفعات پر نہیں اسٹیٹس پر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کو خط

اس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ’محرم علی کیس‘ اور راولپنڈی بار میں دہشتگردی کی دفعات تھیں، فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا ان کی سیکیورٹی کسی آرمی افسر کے کنٹرول میں ہو گی؟، ان سے تحقیقات پولیس افسر کرے گا؟ جہاں فوج کی شمولیت ہو وہاں ملٹری کورٹ شامل ہوں گی۔

اس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 103 افراد ایسے ہیں جن کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو رہا ہے، اس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ میڈیا پر ہم نے فوٹیجز دیکھی ہیں، آپ کہہ رہے ہیں فوج دوران جنگ ہی جواب دے سکتی ہے، گھر پر حملے کا جواب نہیں۔ اس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ فوجی کے حلف میں لکھا ہوتا ہے افسر کا حکم  زندگی سے ذیادہ ضروری ہے۔

عزیر بھنڈاری نے مزید بحث کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے نکلنا ہے کہ فوج ہی سب کچھ کرسکتی ہے، کور کمانڈرہاوس پرحملہ ہوا ڈیفنڈ کیوں نہیں کیا گیا؟۔ اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اپ ایک بات کررہے ہیں جبکہ آپ کے مؤکل دوسری بات کرتے ہیں، آپ کے مؤکل کا کہنا ہے کہ جن کے پاس اختیارات ہیں ان سے بات کروں گا۔ اس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ کمرہ عدالت سے جو باہر ہے اس پر بات نہیں کروں گا، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ یہ سیاست کی بات نہیں حقیقت کی بات ہے۔

مزید پڑھیں:عمران خان کے دورِِ حکومت میں ملٹری کورٹس سے سزا پانیوالے سویلینز کی تفصیلات آگئیں

سماعت کے دوران 7 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی؟ کیا کوئی رکن اسمبلی آج تک آرمی ایکٹ کے خلاف پرائیویٹ بل لایا؟ جس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اب تو معاملہ عدالت کے سامنے ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *