پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر بھارت سندھ طاس معاہدے میں مسئلہ پیدا کرتا ہے تو یہ اعلان جنگ ہوگا، بھارت پورے خطے کا ماحول خراب کر رہا ہے، اسے فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ مذاکرات کرنا چاہتا ہے یا تباہی چاہتا ہے۔۔
منگل کو پارلیمنٹ اجلاس کے بعد آزاد ڈیجیٹل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جیسے مسائل کا حل اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ہی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تو کب سے کہہ رہا ہے کہ تمام مسائل کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور چارٹر کے مطابق ہونا چاہیے لیکن یہ بھارت ہی ہے جو عالمی قوانین کو مانتا ہے نہ ہی عالمی اداروں کا خیال رکھتا ہے، بھارت پورے خطے کا ماحول خراب کر رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے پر وزیراعظم پاکستان اور حکومت پاکستان نے زبردست مؤقف اپنا ہے، جس کی پاکستان پیپلز پارٹی بھرپور تائید کرتی ہے، بھارت نے اگر سندھ طاس معاہدے میں کوئی بھی مسئلہ پیدا کیا تو اسے اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔
اس سے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کو دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بھارت واضح کرے کہ وہ پرامن مذاکرات چاہتا ہے یا پھر تباہی چاہتا ہے، بھارت کو اب فیصلہ کرنا ہوگا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاک فوج کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ بھارت اس وقت انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور جارحانہ اقدامات پر اتر آیا ہے جس کے باعث عالمی امن کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کے کسی بھی واقعے میں ملوث نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت دہشتگردی میں ملوث ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج اور عوام دونوں بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔پاکستانی عزت اور وقار کے ساتھ رہتے ہیں اور کسی کے سامنے نہیں جھکتے۔
بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو ‘انسانیت کے خلاف جرم’ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ صرف دو طرفہ معاہدہ نہیں ہے۔ یہ لاکھوں لوگوں کے لیے لائف لائن ہے۔ سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے غذائی تحفظ اور معاش کو خطرے میں ڈالنا نہ صرف غیر دانشمندانہ ہے بلکہ یہ غیر انسانی بھی ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ بھارت پاکستان کو اس جرم کی سزا دینے کی کوشش کر رہا ہے جو اس کی اپنی سرحدوں کے اندر ہوا اور جس کے لیے کوئی قابل اعتماد ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت متاثرین کا خون خشک ہونے سے پہلے ہی سرحدیں بند کرکے، دھمکیاں دے کر اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر بے رحمی سے کام کر رہا ہے۔
ہم دہشتگردی کے برآمد کنندہ نہیں ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے ممبران اسمبلی کو یاد دلایا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی ہے، اسکول کے بچوں اور فوجیوں کو ایک ساتھ پاک سرزمین میں دفن کیا ہے۔
انہوں نے دہشتگردی کو صرف جسمانی حملہ نہیں بلکہ ’سچائی، امن اور تہذیب پر پرتشدد حملہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی ناانصافی کے سامنے عالمی خاموشی بھی دہشتگردی کی ایک شکل ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بلڈوزر کے ذریعے گھروں کو ملبے میں تبدیل کرنا، غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو لگانا اور پوری آبادی کو دبانا ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔
کشمیر میں بھارتی پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے پی پی چیئرمین نے نئی دہلی پر منافقت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایک ریاست جو مقبوضہ وادی میں روزانہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتی ہے وہ دہشتگردی کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے؟ جب آپ کے ہاتھ کشمیری ماؤں کے آنسوؤں، یتیم بچوں کی چیخوں اور بے جان لوگوں کی خاموشی سے رنگے ہوئے ہوں تو اخلاقی برتری کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان طویل عرصے سے بیرونی مالی اعانت سے چلنے والی نظریاتی دہشتگردی کا خمیازہ بھگت رہا ہے اور اکثر عالمی برادری اپنے زخموں کو نظر انداز کرکے تنہا کھڑی رہتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے زور دے کر کہا کہ ٹینک اور گولیاں دہشتگردی کو شکست نہیں دیں گی۔ صرف انصاف، امید اور سیاسی حل ہی اسے جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت کشمیر میں امن چاہتا ہے تو اسے اختلاف رائے کو خطرے کے طور پر دیکھنا بند کرنا ہوگا۔ لوگوں کو بولنے دیں، بھارتی جبر میں کشمیر ایک ناقابل علاج زخم ‘ اور ’ٹوٹا ہوا وعدہ‘ بنا ہوا ہے۔ 2016 میں بلوچستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا حوالہ دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت کی جانب سے خود کو خطے میں دہشتگردی کا شکار ملک ظاہر کرنے کی کوشش زمینی حقائق سے ہٹ کر بیانیہ ہے۔
انہوں نے نئی دہلی پر زور دیا کہ وہ نہ صرف پراکسیز کی سرپرستی کر رہا ہے بلکہ اس کی اپنی مسلح افواج نہ صرف پاکستان بلکہ سری لنکا اور کینیڈا جیسے ممالک میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں براہ راست ملوث رہی ہیں۔
انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے بھارت پہلگام واقعے کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کی پیشکش کو قبول کرنے سے انکار پر بھی سوال اٹھایا۔ دہشتگردی کا ‘حقیقی شکار’ احتساب سے کیوں گریز کرے گا؟ بھٹو زرداری نے پوچھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دہشتگردی کا راستہ اسلام آباد کی طرف نہیں بلکہ نئی دہلی کی طرف جاتا ہے۔ بلاول بھٹو نے متنبہ کیا کہ اگر دونوں ممالک خطے سے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سنجیدگی سے کام نہیں لیں گے تو آنے والی نسلوں کو بھی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑے گا۔