اتوار کی شام تقریباً 7بجے کے قریب کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے ہلکے جھٹکے محسوس کئے گئے، جس کے باعث شہری خوفزدہ ہو کر گھروں اور دکانوں سے باہر نکل آئے۔
زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 3.6 ریکارڈ کی گئی، جبکہ اس کا مرکز قائد آباد کے نزدیک واقع تھا۔ زلزلے کی گہرائی زمین میں 10 کلومیٹر بتائی گئی ہے۔اگرچہ جھٹکے معمولی نوعیت کے تھے، تاہم شہر کے کئی حصوں میں لوگ پریشانی کے عالم میں گھروں سے باہر نکل آئے اور کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہے ۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق کسی قسم کے جانی یا مالی نقصان کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، اور اسی تناظر میں حالیہ برسوں کے دوران ملک میں موسمی شدت، غیر معمولی بارشوں اور زلزلوں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
زلزلے کیوں آتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق زمین کی تہہ تین بڑی پلیٹوں سے بنی ہے۔ پہلی تہہ کا نام یوریشین، دوسری انڈین اور تیسری اریبئین ہے۔ زیر زمین حرارت جمع ہوتی ہے تو یہ پلیٹس سرکتی ہیں۔ زمین ہلتی ہے اور یہی کیفیت زلزلہ کہلاتی ہے۔
زلزلے کی لہریں دائرے کی شکل میں چاروں جانب یلغار کرتی ہیں۔زلزلوں کا آنا یا آتش فشاں کا پھٹنا، ان علاقوں ميں زیادہ ہے جو ان پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں ایک مرتبہ بڑا زلزلہ آ جائے تو وہاں دوبارہ بھی بڑا زلزلہ آ سکتا ہے۔
زلزلہ قشر الارض سے توانائی کے اچانک اخراج کی وجہ سے رونما ہوتا ہے، يہ توانائی اکثر آتش فشانی لاوے کی شکل ميں سطح زمين پر نمودار ہوتی ہے۔دنیا کے 80 فیصد سے زیادہ زلزلے بحرالکاہل کے کناروں پر ہوتے ہیں جسے رنگ آف فائر یعنی آگ کا دائرہ کہا جاتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں زمین کے اندر آتش فشانی سرگرمی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر زلزلے فالٹ زون میں آتے ہیں، جہاں ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ٹکراتی یا رگڑتی ہیں۔ ٹیکٹونک پلیٹیں وہ پتھریلی چٹانیں ہیں جن سے زمین کی باہر والی تہ بنی ہوئی ہے۔
ان پلیٹوں کے رگڑنے یا ٹکرانے کے اثرات عام طور پر زمین کی سطح پر محسوس نہیں ہوتے لیکن اس کے نتیجے میں ان پلیٹوں کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ جب یہ تناؤ تیزی سے خارج ہوتا ہے تو شدید لرزش پیدا ہوتی ہے جو جسے سائزمک ویوز یعنی زلزلے کی لہر کہتے ہیں۔