حکومت کی جانب سے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے اور دیگر شعبوں کو ریلیف دینے کی کوشش جاری ، لیکن بجٹ میں فائلرز اور نان فائلرز دونوں کے لیے ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے اور دیگر شعبوں کو ریلیف دینے کی کوششوں کے تحت، فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کمرشل بینکوں اور بچت اسکیموں میں رکھی گئی رقم پر حاصل ہونے والی پرافٹ آمدن پر ٹیکس کی شرح میں دو فیصد اضافے پر غور کر رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ تجویز عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے ساتھ جاری مذاکرات کا حصہ ہے، تاہم فنڈ کی جانب سے اس پر حتمی منظوری تاحال نہیں دی گئی۔
آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر کچھ طبقات کو ریلیف دیا جاتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والے مالی خسارے کی تلافی کے لیے متبادل ٹیکس اقدامات تجویز کیے جائیں۔
موجودہ صورتحال میں فائلرز کی سودی آمدن پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد جبکہ نان فائلرز کے لیے یہ شرح بڑھا کر 35 فیصد کی جا چکی ہے، آئندہ بجٹ میں دونوں ہی کی غیر فعال آمدن پر مزید 2 فیصد اضافے پر غور جاری ہے۔
اس حوالے سے ایف بی آر کے سابق ممبر ٹیکس پالیسی، ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا ہے کہ سود پر ٹیکس کی شرح میں اضافے سے وہ افراد متاثر ہوں گے جو بینکوں یا بچت اسکیموں سے حاصل ہونے والے منافع پر انحصار کرتے ہیں، جبکہ اس اقدام سے کمرشل بینکوں کی ڈپازٹس میں بھی کمی متوقع ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ 15 فیصد کی موجودہ شرح ویسے ہی خاصی زیادہ ہے، کیونکہ یہ آمدنی پہلے ہی ٹیکس شدہ ذرائع سے حاصل کی گئی رقم پر مبنی ہوتی ہے، یہ شرح ان افراد پر لاگو ہوتی ہے جن کی سالانہ پرافٹ آمدن 50 لاکھ روپے تک ہو، جبکہ اس سے زائد آمدن پر عمومی انکم ٹیکس کی شرحیں لاگو ہوتی ہیں۔
کمپنیوں کو حاصل ہونے والی سودی آمدن پر بھی عمومی کارپوریٹ ٹیکس لاگو ہوتا ہے، جو کہ 29 فیصد کے ساتھ اضافی سرچارج اور سپر ٹیکس پر مشتمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیویڈنڈ پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد تھی، تو حکومت ایک اور بگاڑ پیدا کرنے پر کیوں غور کر رہی ہے؟ ۔