وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مالی سال 26-2025 کے لیے 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا، سرکاری ملازمین کے لیے بجٹ میں 10 تا 12 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دینےاور 5 فیصد محصولات ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مالی سال 2025-26 کے لیے 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا، جس میں صوبے کی سماجی، معاشی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر توجہ دی گئی ہے۔ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک جامع بجٹ ہے جو سندھ کی غیر استعمال شدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے تعلیم، صحت، بنیادی سہولیات اور معیشت کو مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ انہیں ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا جائے گا، گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کو 12 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کو 10 فیصد اضافہ ملے گا۔ ساتھ ہی پنشن میں 8 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ معذور ملازمین کے کنوینس الاؤنس میں بھی بہتری لائی گئی ہے۔ حکومت نے واجب الادا پنشن کی مکمل ادائیگی کا اعلان بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ عوامی ریلیف کے تحت صوبائی حکومت نے پانچ محصولات کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن میں پروفیشنل ٹیکس اور انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی شامل ہیں۔ موٹر وہیکل ٹیکس میں بھی کمی کی گئی ہے، جبکہ سیلز ٹیکس کا نظام آسان بنانے کے لیے نیگیٹو لسٹ سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے۔
وزیراعلی نے کہاکہ سندھ حکومت نے نئے مالی سال کے دوران کل صوبائی آمدنی کا تخمینہ 34 کھرب 11 ارب روپے لگایا ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 11.6 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی قابل تقسیم محاصل سے سندھ کو 19 کھرب 27 ارب روپے ملنے کی توقع ہے، جب کہ گرانٹس کی مد میں وفاقی منتقلی 20 کھرب 95 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ موجودہ ریونیو اخراجات کا تخمینہ 21 کھرب 49 ارب روپے لگایا گیا ہے، جس میں اضافہ تنخواہوں، پنشن، گرانٹس اور مہنگائی کے اثرات کے باعث ہوا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ تعلیم کے شعبے کو 523.73 ارب روپے دیے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 12.4 فیصد زیادہ ہیں۔ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ نئے اقدامات میں 4400 اساتذہ کی بھرتی، کمیونٹی کالجز کا قیام اور اسکولوں کو مزید بااختیار بنانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ مستحق طلبہ کی مدد کے لیے سندھ ایجوکیشنل اینڈوومنٹ فنڈ میں 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبے کے لیے 326.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں ایس آئی یو ٹی، پی پی ایچ آئی، اور لاڑکانہ میں نئے اسپتال کے لیے بجٹ شامل ہے۔ صحت کی سہولیات کی بہتری اور دیہی علاقوں میں رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ایمبولینس سروسز اور موبائل یونٹس کو بڑھایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 1018 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس میں صوبائی، ضلعی اور غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبے شامل ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحات میں تعلیم، صحت، زراعت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صفائی، کراچی میں شہری ترقی اور گرین انرجی کے منصوبے شامل ہیں۔ کل 3642 اسکیمیں رکھی گئی ہیں جن میں سے زیادہ تر جاری منصوبے ہیں۔
وزیراعلی مراد علی شاہ نے کہا کہ شعبہ جاتی مختص رقم کے لحاظ سے تعلیم، صحت، آبپاشی، مقامی حکومت، ورکس اینڈ سروسز، توانائی، زراعت، ٹرانسپورٹ جیسے شعبوں کو نمایاں فنڈنگ دی گئی ہے۔ کراچی میں شہری ترقی کے کئی منصوبے شامل کیے گئے ہیں جن میں سڑکوں کی بہتری، پانی و سیوریج کے منصوبے، برقی بسیں، بی آر ٹی منصوبے اور سیف سٹی پروجیکٹ شامل ہیں۔
وزیراعلی سندھ کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل گورننس کے تحت زمین کے ریکارڈ کو بلاک چین پر منتقل کرنے، پیدائش کی رجسٹریشن کے نظام کو ڈیجیٹل بنانے اور پرفارمنس مانیٹرنگ ڈیش بورڈ متعارف کرانے جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ زرعی شعبے کے لیے بینظیر ہاری کارڈ متعارف کرایا گیا ہے جس سے دو لاکھ سے زائد کسان مستفید ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سماجی بہبود میں اسکولوں کے سربراہان کو عملی فنڈز کی فراہمی، معذور افراد کے لیے وظائف اور بحالی مراکز کا قیام، اور نوجوانوں کے لیے یوتھ ڈویلپمنٹ سینٹرز کا قیام شامل ہے۔ صحافیوں، وکلا اور اقلیتوں کے لیے خصوصی گرانٹس بھی مختص کی گئی ہیں۔
وزیراعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ مالی سال میں 1460 ترقیاتی اسکیمیں مکمل ہوئیں، جبکہ سیلاب متاثرین کے لیے 4 لاکھ سے زائد گھروں کی تعمیر عمل میں لائی گئی۔ کل ترقیاتی اخراجات 468 ارب روپے تک پہنچے، اور فنڈز کا 73 فیصد استعمال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے باوجود صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں پر بھرپور کام کیا ہے۔ انہوں نے مختلف بڑے طبی اداروں جیسے جے پی ایم سی، این آئی سی وی ڈی، ایس آئی یو ٹی اور گمبٹ انسٹی ٹیوٹ کی خدمات اور کارکردگی کو بھی نمایاں کیا۔