جنگ سے نہیں ڈرتے، اسرائیلی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، شامی صدر احمد الشعار

جنگ سے نہیں ڈرتے، اسرائیلی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، شامی صدر احمد الشعار

شام کے عبوری صدر احمد الشعار نے اسرائیل پر شام کو تقسیم کرنے کے لیے اندرونی خلفشار کا فائدہ اٹھانے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ شام بیرونی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کا شام پر بڑا فضائی حملہ، دمشق کے صدارتی محل اور وزارت دفاع کی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا

قوم سے ٹیلی ویژن پر خطاب میں احمد الشعار نے جنوبی صوبے سویڈا میں دروز اقلیت کے تحفظ کا وعدہ کیا، جہاں دروز ملیشیاؤں اور بدو قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں میں اب تک 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان جھڑپوں کا آغاز ایک مقامی تاجر کے اغوا کے بعد ہوا، جس کے بعد اسرائیل نے شامی فوجی اہداف پر فضائی حملے کیے اور امریکا نے ہنگامی سفارتی کوششیں شروع کیں۔

احمد الشعار نے کہا کہ ’ہم اس سرزمین کے بیٹے ہیں اور اسرائیلی وجود کی ان سازشوں کو ناکام بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں‘ ۔ انہوں نے دروز برادری کو ’وطن کے تانے بانے کا ایک لازمی حصہ‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ’ہم آپ کو کسی بیرونی فریق کے ہاتھوں میں جانے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں‘۔

سویڈا میں حکومتی کارروائی

احمد الشعار نے کہا کہ شامی ریاستی ادارے پوری قوت کے ساتھ سویڈا میں خونریزی روکنے کے لیے متحرک ہوئے اور ’سیکیورٹی قابو میں آ گئی ہے‘۔ ان کے بقول، چند دنوں کی جھڑپوں کے بعد درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کے مطابق، فوج نے اب مقامی دروز عمائدین کے ساتھ ایک مفاہمت کے تحت صوبے سے انخلا شروع کر دیا ہے، جسے حکام نے ’غیر قانونی گروپوں کا پیچھا مکمل ہونے‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

احمد الشعار نے کہا کہ امن قائم رکھنے کے لیے مقامی دروز مشائخ کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

اسرائیل پر شام کو غیر مستحکم کرنے کا الزام

عبوری صدر نے اسرائیل پر شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’اسد حکومت کے زوال کے بعد سے اسرائیل مسلسل شام کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اپنے ملک کو خانہ جنگی کا میدان نہیں بننے دیں گے‘۔

یہ بیان اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد سامنے آیا، جن میں دمشق اور سویڈا کی جانب جانے والے شامی فوجی قافلوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے ان حملوں کو ’اپنے دروز بھائیوں کو بچانے‘ اور ’ریجیم کے غنڈوں‘  کا صفایا کرنے کی کوشش قرار دیا۔

مزید پڑھیں:بلوچستان میں فتنہ الہندوستان کی سفاکانہ کارروائی، پنجاب جانے والی بسوں سے 9 مسافروں کو اتار کر شہید کر دیا

شام کی وزارت خارجہ نے ان حملوں کو ’غداری پر مبنی جارحیت‘ قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کہا اور الزام لگایا کہ اسرائیل ملک میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے۔

امریکی سفارتی کوششیں

جوں ہی جھڑپیں شدت اختیار کر گئیں، امریکا نے ثالثی کے لیے فوری اقدام کیا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ واشنگٹن نے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر تشدد کے خاتمے کے لیے ’واضح اقدامات‘ پر اتفاق کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ حالات چند گھنٹوں میں بہتر ہو جائیں گے۔

شام کی وزارت خارجہ نے ان امریکی کوششوں کو ’تعمیری‘ قرار دیتے ہوئے ان کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ اقدامات ملک کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ہیں۔

’ہم جنگ سے نہیں ڈرتے‘

اپنے خطاب میں احمد الشعار نے واضح انداز میں کہا کہ شام کسی بھی جارحیت کا سامنا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ’ہم وہ نہیں جنہیں جنگ سے ڈر ہو۔ ہم نے اپنی پوری زندگی چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور اپنی قوم کا دفاع کیا ہے، لیکن ہم نے ہمیشہ عوامی مفاد کو انتشار اور تباہی پر ترجیح دی ہے‘۔

انہوں نے خبردار کیا کہ طاقت کے بل بوتے پر جنگ شروع تو کی جا سکتی ہے، مگر اس کے نتائج پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا ’ آپ جنگ شروع کرنے کی طاقت رکھتے ہوں گے، لیکن اس کے نتائج کو کنٹرول کرنا آسان نہیں‘۔

اس بیان کو شام کی عبوری حکومت کی اب تک کی سب سے مضبوط اور واضح پوزیشن قرار دیا جا رہا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ قیادت ایک جانب سفارتی حل کو ترجیح دے رہی ہے، تو دوسری جانب ملک کی خودمختاری اور سلامتی کے لیے پرعزم بھی ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *