امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام بدنام زمانہ فنانسر اور مجرم جیفری ایپسٹین سے متعلق دستاویزات میں شامل ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد وائٹ ہاؤس سیاسی دباؤ کی زد میں آ گیا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کو اس سال کے اوائل میں اٹارنی جنرل پام بونڈی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ٹوڈ بلینچ نے خاموشی سے بریفنگ دی تھی کہ ان کا نام ان دستاویزات میں موجود ہے جن میں کئی اہم شخصیات کے بارے میں غیر مصدقہ باتیں شامل ہیں۔ اگرچہ صدر کے خلاف کسی قسم کا الزام یا مجرمانہ کارروائی سامنے نہیں آئی، لیکن ان کا نام ان فائلز میں شامل ہونے سے شفافیت کے مطالبات اور سیاسی بحث میں شدت آ گئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کا شدید ردعمل
اس خبر کے ردعمل میں وائٹ ہاؤس نے بھرپور دفاعی مہم شروع کر دی ہے۔ کمیونیکیشنز ڈائریکٹر اسٹیون چیونگ نے رپورٹس کو ’جعلی خبر ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے ایپسٹین سے بہت پہلے تعلقات ختم کر دیے تھے اور اسے فلوریڈا میں واقع مار-اے-لاگو کلب سے ’ناشائستہ رویے‘ کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔
چیونگ نے میڈیا اور ڈیموکریٹس پر الزام عائد کیا کہ وہ ایپسٹین کے معاملے کو دوبارہ زندہ کر کے ٹرمپ کی ساکھ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ ڈیموکریٹس اور لبرل میڈیا کی طرف سے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں کا تسلسل ہے‘۔
تاہم پس پردہ، حکام نے اس بات کی تردید نہیں کی کہ ٹرمپ کا نام واقعی ان دستاویزات میں شامل ہے۔ رائٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ محکمہ انصاف کی کچھ فائلز ، جنہیں فروری میں دائیں بازو کے سوشل میڈیا اثر و رسوخ رکھنے والوں کے ساتھ شیئر کیا گیا، میں نہ صرف ٹرمپ کا نام بلکہ ان کے کچھ قریبی رشتہ داروں کی رابطہ معلومات بھی شامل تھیں۔
شفافیت کا سوال
یہ انکشاف وائٹ ہاؤس کو ایک نازک صورتحال سے دوچار کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایپسٹین سے متعلق تمام ریکارڈز کو منظرِ عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا، جو تاحال پورا نہیں ہوا۔ بدھ کو ایک وفاقی جج نے 2006 کے فلوریڈا کیس سے متعلق گرینڈ جیوری ریکارڈز کو عام کرنے کی محکمہ انصاف کی درخواست مسترد کر دی، جس سے حکومت پر وعدہ خلافی کا الزام مزید زور پکڑ گیا۔
12 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جج رابن روزنبرگ نے لکھا کہ فلوریڈا کے قوانین گرینڈ جیوری کے مواد کے افشا کی اجازت نہیں دیتے اور انہوں نے کیس کو نیویارک منتقل کرنے کی درخواست بھی رد کر دی جہاں اسی معاملے سے متعلق دیگر درخواستیں زیرِ غور ہیں۔
کانگریس میں تناؤ اور ریپبلکنز میں پھوٹ
ایپسٹین فائلز نے کانگریس میں بھی تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ ڈیموکریٹ سینیٹر ایڈم شف نے مطالبہ کیا ہے کہ اٹارنی جنرل بونڈی اور ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل سینیٹ کی عدلیہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوں اور وضاحت دیں۔
ریپبلکن پارٹی کے اندر بھی اس معاملے پر شدید اختلافات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے حمایتیوں نے پام بونڈی پر اس بنیاد پر شدید تنقید کی کہ انہوں نے فائلز میں ’مزید تحقیقات کی ضرورت نہ ہونے‘ کا تاثر دیا۔ بعض افراد نے تو ان کے استعفے کا مطالبہ بھی کر دیا۔
اسی ہنگامے کے دوران اسپیکر ہاؤس مائیک جانسن نے منگل کو اچانک کانگریسی کارروائی روک دی، جسے ایپسٹین فائلز کے اجرا کے مطالبے کو مؤخر کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم بدھ کو ایوانِ نمائندگان کی اوور سائٹ سب کمیٹی میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ اراکین نے مل کر محکمہ انصاف کو ایپسٹین فائلز کے لیے سمن جاری کرنے کی قرارداد منظور کی۔ اب اس سمن کے نفاذ کے لیے کمیٹی چیئرمین جیمز کومر کی منظوری درکار ہے۔
گھسلین میکسویل کا بیان
ایپسٹین کے نیٹ ورک پر نئی توجہ کے ساتھ، اس کی ساتھی گھسلین میکسویل پر بھی نگاہیں مرکوز ہو گئی ہیں، جو جنسی اسمگلنگ کے جرم میں 20 سال کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ ان کے وکیل کے مطابق، وہ 11 اگست کو کانگریس کے سامنے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان دے سکتی ہیں۔
وکیل ڈیوڈ آسکر مارکس نے برطانوی براڈ کاسٹنگ ادارے کو بتایا کہ میکسویل وفاقی استغاثہ کے ساتھ بات چیت کر رہی ہیں اور اگر انہوں نے خاموش رہنے کا آئینی حق ترک کیا تو وہ ’سچ بولیں گی، جیسا کہ وہ پہلے بھی کہہ چکی ہیں‘۔
تاہم، اسپیکر مائیک جانسن نے خبردار کیا کہ میکسویل کے بیان پر مکمل انحصار نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا، ’یہ ایک ایسی شخصیت ہے جو خوفناک، ناقابلِ بیان اور سازشی جرائم میں سزا یافتہ ہے‘۔
سازشی نظریات بدستور قائم
اٹارنی جنرل بونڈی نے ایپسٹین کی موت کے حوالے سے سازشی نظریات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ 2019 میں نیویارک کی جیل میں مقدمے کا سامنا کرتے ہوئے خودکشی کر چکا تھے۔ بونڈی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ محکمہ انصاف کے جائزے میں کوئی ’مجرمانہ کلائنٹ لسٹ‘ نہیں ملی۔
تاہم، اہم شخصیات کے ملوث ہونے اور مسلسل پردہ پوشی نے عوامی شکوک و شبہات کو کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی دہری حکمتِ عملی، انکار اور معلومات چھپانا، سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر ان ووٹرز کے لیے جو شفافیت کے وعدوں پر ٹرمپ کے ساتھ کھڑے تھے۔