بھارت کی ریاست بہار میں ووٹر لسٹ کی نظرثانی کے متنازع عمل پر سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا، جب کہ کانگریس اور انڈیا اتحاد نے انتخابی بائیکاٹ سمیت تمام آپشنز پرغور کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بہار میں ’اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر) کے تحت ووٹر لسٹوں میں نظرثانی کے عمل کو اپوزیشن جماعتوں نے اقلیتوں کے خلاف منظم سازش قرار دیا ہے۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن اپنا کام نہیں کر رہا، یہ اب ہندوستان کا الیکشن کمیشن نہیں لگتا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ لسٹ میں 60 سال کے ہزاروں نئے ووٹرز کا اندراج دراصل ووٹوں کی منظم چوری کا ثبوت ہے۔
کانگریس کے بہار انچارج کرشنا الاوارو نے ’ایس آئی آر‘ کو ’آمرانہ عمل‘ قرار دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا جاری کردہ ڈیٹا مکمل طور پر غلط ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پورا عمل ووٹ اور الیکشن چوری کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے اور یہ صرف بہار کا نہیں بلکہ پورے بھارت کا مسئلہ بن چکا ہے۔
دی وائر کی رپورٹ کے مطابق، الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں 60.1 لاکھ ووٹرز کو وفات یافتہ، منتقل شدہ یا دہری رجسٹریشن والے قرار دے کر ووٹر فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر بی جے پی کے مقامی افسران اور بوتھ لیول اہلکار خود سے ووٹر فارم بھر رہے ہیں۔
آر جے ڈی کے رہنما تیجسوی یادیو نے کہا کہ اسمبلی انتخابات کا بائیکاٹ ’کھلا آپشن‘ ہے، جبکہ لوک سبھا میں ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نے الزام لگایا کہ حکومت کی خاموشی دراصل عوام کے ووٹ چھیننے کا ثبوت ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ نظرثانی کے عمل میں اقلیتی ووٹروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو بھارتی آئین کے آرٹیکل 326 کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت ہر بالغ شہری کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ این آر سی، سی اے اے اور اب ’ایس آئی آر‘ جیسے اقدامات کے ذریعے مودی حکومت اقلیتوں کی شہریت اور ووٹ کے حق کو محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ مودی سرکار بھارت کو ہندوتوا نظریے کے تحت ایک انتہا پسند ریاست میں تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
انتخابی دھاندلی، اقلیت دشمنی اور آئینی خلاف ورزیوں کے ان الزامات کے تناظر میں بھارت کی جمہوری ساکھ پر سنگین سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔