قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ حملہ آور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے جبکہ ملزمان کی شناخت اور گرفتاری کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔
یہ افسوسناک واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب چند ہفتے قبل ہی لوئر کرّم اور صدہ کے قبائلی عمائدین کے درمیان ایک سالہ امن معاہدہ طے پایا تھا، جس کا مقصد علاقے میں برسوں سے جاری فرقہ وارانہ اور قبائلی کشیدگی کا خاتمہ تھا۔
یہ معاہدہ صدہ میں فرنٹیئر کورٹ فورٹ میں ہونے والی ایک جرگے کے دوران ہوا، جس میں سنی اور ٹوری بنگش قبائل کے نمائندوں نے ضلعی حکام اور سیکیورٹی فورسز کے ہمراہ شرکت کی۔
ڈپٹی کمشنر اشفاق خان نے اس معاہدے کو ’علاقائی استحکام کے لیے سنگِ میل‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امن کے قیام میں قبائلی رہنماؤں کے تعاون اور سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کا کلیدی کردار ہے۔
بدھ کو ہونے والے اس حملے نے اس نازک امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے، اور خدشہ ہے کہ یہ علاقہ ایک بار پھر تشدد کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
ادھر ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ افسوسناک واقعہ پرانی ذاتی دشمنی کی وجہ سے پیش آیا۔ وچہ درہ کے رہائشی تاج میر اور عمل دین زمینی تنازعات کی وجہ سے پہلے بھی 2024 میں ایک دوسرے کے ایک ایک فرد کو قتل کرچکے ہے، اور یہی پرانی رنجش اس حالیہ خونریز واقعے کا سبب بنی۔ آج کے واقعے میں عمل دین کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔
جاں بحق افراد کی لاشیں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال سدہ منتقل کر دی گئیں اور ٹل، پاڑہ چنار روڈ کو کسی بھی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ کرم میں اس سے پہلے بھی ذاتی دشمنی کی بنیاد پے بہت سے حادثات ھو چکے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ ذاتی دشمنی میں فرقہ وارانہ بنیادیں شامل ہو گئیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی لڑائیوں میں مقابل پارٹی سمیت معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ جنوری میں ہونے والے کوہاٹ معاہدے کے تحت فریقین نے ہتھیار واپس کرنے اور تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا، جس کے بعد علاقے میں امن قائم ہوا۔