بنوں سیکیورٹی فورسز کے بیس پر خود کش حملے میں 3 افغان شہری ملوث نکلے

بنوں سیکیورٹی فورسز کے بیس پر خود کش حملے میں 3 افغان شہری ملوث نکلے

پاکستانی کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بنوں میں سیکیورٹی فورسز کے بیس پر گزشتہ ہفتے ہونے والے مہلک خودکش حملے سے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ اس میں شامل 5 حملہ آوروں میں سے 3 افغان شہری تھے۔

یہ بھی پڑھیں:بنوں میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر دہشت گردوں کا حملہ، 6 جوان شہید، 5 دہشت گرد ہلاک

سیکیورٹی ذرائع نے افغانستان انٹرنیشنل کو بتایا ہے کہ’حملہ آوروں کی شناخت عبدالعزیز عرف قاصد مہاجر (ماتا خان، پکتیکا)، شبیر احمد عرف مولوی بلال مہاجر (سیدآباد، میدان وردک) اور نجیب اللہ عرف حاذقہ (خوست) کے طور پر کی گئی ہے۔ پاکستانی حکام نے تاحال ان حملہ آوروں کی شناخت کی تصدیق نہیں کی ہے۔

افغانستان انٹرنیشنل کو موصول ہونے والی ایک ویڈیو میں، حملہ آوروں میں سے ایک کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں ’اللہ کے راستے میں قربانی دینے‘ کے لیے تیار ہے اور اس نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے اپنی کارروائی میں مدد فراہم کرنے کی اپیل کی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ صوبہ ہلمند کے علاقے بہرامچہ میں مقیم تھا، جو مبینہ طور پر سرحد پار سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

حملے کا آغاز اُس وقت ہوا جب خوارج دہشتگردوں نے بارود سے بھری گاڑی سیکیورٹی فورسز کے بیس کیمپ کی دیوار سے ٹکرا دی، جس کے بعد وہ کمپاؤنڈ میں داخل ہوئے اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ 12 گھنٹے طویل فائرنگ کے تبادلے میں مصروف رہے۔ پاکستانی پولیس کے مطابق، 6 سیکیورٹی جوان شہید اور تمام 6 حملہ آور مارے گئے، جب کہ 16 سیکیورٹی فورسز کے جوان اور 3 شہری زخمی ہوئے۔

یہ حملہ افغان طالبان کی پرانی جنگی حکمت عملی سے مشابہت رکھتا تھا، جس میں خودکش دھماکے اور کار بم حملے شامل ہوتے تھے۔

مزید پڑھیں:بنوں میں پولیس چوکی پر حملہ، پولیس کانسٹیبل شہید، 3 زخمی، جوابی کارروائی میں 3 خوارج دہشتگرد ہلاک

یہ واقعہ پاکستان اور طالبان کی زیر قیادت افغان حکومت کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی کا سبب بن گیا ہے۔ جمعہ کو پاکستانی وزارت خارجہ نے افغان وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد کے اُس بیان کو مسترد کر دیا، جس میں انہوں نے پاکستانی فوج کی صلاحیت پر سوال اٹھایا تھا۔

وزارت خارجہ نے اُن کے بیان کو ’طنز و طعنے‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے بیانات افغانستان میں ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کی حقیقت کو چھپا نہیں سکتے۔

اگرچہ افغان طالبان حکومت بارہا اس بات کی تردید کرتی رہی ہے کہ ٹی ٹی پی یا دیگر غیر ملکی گروہ افغان سرزمین سے کام کر رہے ہیں، لیکن بین الاقوامی اداروں کا اندازہ ہے کہ تقریباً 6,000 کالعدم ٹی ٹی پی جنگجو اس وقت افغانستان میں موجود ہیں، جن میں سے کئی منظم تربیتی مراکز میں سرگرم ہیں۔

یہ حالیہ حملہ سرحد پار شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے اور پاکستان و افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو واضح کرتا ہے، جو خطے کے امن و سلامتی کے لیے خطرناک اشارہ ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *