غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران اہم پیش رفت کے طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تنازع فلسطین کے 2 ریاستی حل کے اعلامیے کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے قرارداد منظور کر لی ہے۔
نیویارک میں جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان 2 ریاستی حل کے لیے ’ٹھوس، مقررہ مدت میں ناقابل واپسی اقدامات‘ کے اعلامیے کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کرلی ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے قبل عالمی رہنما فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
یہ 7 صفحات پر مشتمل اعلامیہ جولائی میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والی ایک اعلیٰ سطح کی بین الاقوامی کانفرنس کا نتیجہ ہے۔ اس کانفرنس کا مقصد اسرائیل-فلسطین تنازع پر نئی پیش رفت حاصل کرنا تھا۔ امریکا اور اسرائیل نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا اور جمعہ کی ووٹنگ میں قرارداد کی مخالفت کی۔
193 رکنی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد کے حق میں 142 ووٹ آئے، 10 ممالک نے مخالفت کی، جبکہ 12 نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت پر ہوئی ہے جب 22 ستمبر کو اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطح کے اجلاس کے موقع پر برطانیہ سمیت کئی اہم ممالک فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔
منظور شدہ اعلامیے میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہریوں اور شہری انفراسٹرکچر پر حملوں اور محاصرے کی سختی سے مذمت کی گئی ہے، جس کے باعث ایک ’تباہ کن انسانی المیہ‘ جنم لے چکا ہے۔ اعلامیہ یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ غزہ میں جنگ ’فوری طور پر ختم کی جائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت ایک عارضی بین الاقوامی امن مشن تعینات کیا جائے۔
اقوام متحدہ نے پہلی بار اپنے کسی متن میں حماس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس کے ہتھیار ڈالنے اور غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نوئل بارو نے اس اقدام کو ’تاریخی پیش رفت‘ قرار دیتے ہوئے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’ آج اقوام متحدہ نے پہلی بار ایک متن منظور کیا ہے جس میں حماس کی مذمت کی گئی ہے اور اس کے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے‘۔
تمام خلیجی عرب ممالک نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ مخالفت کرنے والے ممالک میں امریکا، اسرائیل، ارجنٹینا، ہنگری، مائیکرونیشیا، ناورو، پلاؤ، پاپوا نیو گنی، پیراگوئے اور ٹونگا شامل تھے۔
امریکی سفارتکار مورگن اورٹیگس نے قرارداد کو ’ایک اور گمراہ کن اور غیر موزوں تشہیری چال‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے امن کی سنجیدہ کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیل نے بھی قرارداد کو جانبدار قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور اسے ’سیاسی تھیٹر‘ کا نام دیا ہے۔