ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف اتوار کے ہائی وولٹیج مقابلے سے قبل پاکستان کے کپتان سلمان علی آغا نے دو ٹوک پیغام دے دیا ہے کہ میری ٹیم اب خوش کرنے کے لیے نہیں، جیتنے کے لیے کھیل رہی ہے اور وہ بھی بے خوف اور بے باک انداز میں۔
پریس کانفرنس کے دوران سلمان علی آغا سے جب حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں کھلاڑیوں کو تحمل سے کھیلنے کی ہدایت کے بارے میں پوچھا گیا، تو ان کا ردعمل واضح اور پراعتماد تھا۔
سلمان علی آغا نے کہا کہ ’ ایسا کوئی پیغام کھلاڑیوں کو نہیں دیا گیا۔’میرے کھلاڑی جب چاہیں جارحانہ کھیل پیش کر سکتے ہیں، اور جب چاہیں تحمل کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔ یہ بیان صرف ایک کپتان کی رائے نہیں، بلکہ ایک نئی سوچ کی عکاسی ہے، ایسی ٹیم جو نہ معذرت خواہ ہے، نہ دباؤ میں، بلکہ اپنے کھیل اور مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔
سلمان علی آغا کی قیادت اور ساتھ ہی نیوزی لینڈ کے مائیک ہیسن کی بطور وائٹ بال ہیڈ کوچ تقرری نے پاکستانی کرکٹ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ یہ دونوں مل کر ایک ایسا ڈھانچہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو پاکستان کرکٹ میں طویل عرصے سے مفقود تھا۔
کراچی کے 22 سالہ مداح علی زکی کہتے ہیں کہ ’سلمان علی آغا کی بطور کپتان تقرری سے ہماری امیدیں جاگ گئی ہیں‘۔ ’اگرچہ ٹیم ناتجربہ کار ہے، لیکن کھلاڑیوں کی نیت صاف نظر آتی ہے۔ اس سے پہلے میرے دل میں ٹیم کے لیے کوئی امید نہیں تھی‘۔
انداز بھی بدلا، فیصلے بھی
سلمان علی آغا اور ہیسن کی قیادت میں اب تک 15 میچز ہو چکے ہیں اور اس دوران کئی دلیرانہ فیصلے کیے گئے، جن میں مایہ ناز بلے باز بابر اعظم اور محمد رضوان کی جگہ نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا جا رہا ہے، اور فردِ واحد پر انحصار کی بجائے ٹیم کلچر پر زور دیا جا رہا ہے۔
سلمان علی آغا خود اس تبدیلی کی علامت بن چکے ہیں۔ حالیہ پوڈکاسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’ پاکستان ٹیم میں بغیر میرٹ کے جگہ نہیں بنتی، ہر سطح پر مسلسل پرفارمنس دینی پڑتی ہے اور کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘۔
یہ رویہ پچھلی قیادت سے بالکل مختلف ہے، جو اکثر ناکامی کے خوف میں مبتلا دکھائی دیتی تھی۔ گزشتہ سال ٹی20 ورلڈ کپ میں پاکستان کی مایوس کن کارکردگی، خصوصاً امریکا کے خلاف شرمناک شکست، نے ثابت کر دیا کہ محتاط انداز اب مزید قابل قبول نہیں۔
ٹیم کا رویہ، کپتان کی عکاسی
سلمان علی آغا میڈیا سے بات چیت اب زیادہ واضح اور خود اعتمادی سے بھرپور ہوتی ہے۔ اسٹمپ مائیک میں ان کی چٹکلے بازی، سلیجنگ اور کبھی کبھار ہلکی پھلکی گالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں، جس سے ایک ایسی ڈریسنگ روم کی جھلک ملتی ہے جو اب خود کو چھپاتا نہیں۔’ جیسا کہ جین زی فینز کہتے ہیں کہ پاکستان ٹیم میں اب ماضی کا نہیں، حال کا لگتا ہے‘۔
اتوار کو بھارت کے خلاف میچ نہ صرف تکنیکی، بلکہ ذہنی امتحان بھی ہو گا۔ جیت ہو یا ہار، سلمان علی آغا کی قیادت میں پاکستان کی یہ نئی پہچان شائقین کو متاثر کر رہی ہے اور اس بار صرف نتائج کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اس جرات مندانہ رویے کی بدولت جو عرصے سے غائب تھا۔