سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی اہم شقیں بحال کر دیں، پارلیمنٹ کو 45 دن کے اندر قانون سازی کی ہدایت

سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی اہم شقیں بحال کر دیں، پارلیمنٹ کو 45 دن کے اندر قانون سازی کی ہدایت

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم فیصلے میں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کی وہ شقیں بحال کر دی ہیں جنہیں پہلے غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کر دیا گیا تھا۔

ان شقوں کے تحت مخصوص جرائم میں ملوث شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں کارروائی کی اجازت دی گئی ہے، تاہم عدالت نے وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کو ہدایت دی ہے کہ وہ 45 دن کے اندر ایک ایسا قانون منظور کریں جس کے تحت ان مقدمات میں سزا پانے والے شہریوں کو سویلین عدالتوں میں اپیل کا آزادانہ حق حاصل ہو۔

یہ بھی پڑھیں:کیا کسی ممبرپارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی؟ جسٹس امین الدین کا استفسار

یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ایک بڑے بینچ نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کی دفعہ 5 کے تحت دائر کی گئی انٹرا کورٹ اپیلوں پر سنایا۔

یہ اپیلیں 23 اکتوبر 2023 کو سنائے گئے اُس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھیں، جس میں عدالت کے 5 رکنی بینچ نے (4کے مقابلے میں ایک کی اکثریت سے) آرمی ایکٹ کی بعض شقوں کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور 9–10 مئی 2023 کے پُرتشدد واقعات کے بعد شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر پابندی عائد کر دی تھی۔

7 مئی کو سنائے گئے پرانے فیصلے کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر آرمی ایکٹ کی دفعہ 2(1)(d)(i) اور (ii) اور دفعہ 59(4) کو بحال کر دیا۔ یہ دفعات اُن شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی اجازت دیتی ہیں جو فوجی اہلکاروں کو ان کی ڈیوٹی سے ہٹانے کی کوشش کریں یا دفاعی تنصیبات سے متعلقہ آفیشل سیکریٹس ایکٹ 1923 کے تحت کسی جرم کے مرتکب ہوں۔ یہ ریمارکس انہوں نے 7 مئی کو سنائے گئے مختصر فیصلے کی وضاحت میں 68 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں دیے، جو 38 انٹرا کورٹ اپیلوں کے ایک سیٹ پر دیا گیا۔

تاہم، عدالت نے واضح کیا کہ ان دفعات کا اطلاق محدود نوعیت کا ہے اور انہیں تمام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں کے استعمال کے لیے کھلی چھوٹ نہیں سمجھا جائے۔

فیصلہ جسٹس امین الدین خان تحریر کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ اگرچہ آرمی ایکٹ میں بظاہر قانونی طریقہ کار کی کچھ ضمانتیں موجود ہیں، لیکن سویلین عدالت میں اپیل کا آزادانہ حق نہ ہونے کے باعث یہ قانون شہریوں کے لیے آئینی تقاضے پورے نہیں کرتا۔ ان کے مطابق ’یہ دفعات بذاتِ خود غیر آئینی نہیں ہیں، لیکن ان میں موجود قانونی خلا کو قانون سازی کے ذریعے پُر کرنا ضروری ہے‘۔

جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے متفقہ نوٹ میں اس بات پر زور دیا کہ سویلین فورم پر اپیل کا حق آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت ہر فرد کے منصفانہ ٹرائل کے حق کا بنیادی جزو ہے۔

جب تک پارلیمنٹ اس حوالے سے قانون سازی نہیں کرتی، سپریم کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد ہائی کورٹس سے رجوع کر سکتے ہیں، جہاں عدالتیں یہ جائزہ لیں گی کہ آیا مقدمے کی کارروائی شفاف طریقے سے ہوئی اور سزا شواہد کی بنیاد پر دی گئی یا نہیں۔

مزید پڑھیں:لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو آرمی ایکٹ کے مطابق جو سزا بنتی ہے ملے گی، رانا ثنا اللہ

عدالت نے 45 دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مدت میں قانون سازی کے ذریعے موجودہ قانونی خامی کو دور کیا جائے تاکہ فوجی عدالتی نظام کو آئینی تحفظات کے مطابق بنایا جا سکے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح کیا کہ پُرامن احتجاج اور اجتماع ہر شہری کا آئینی حق ہے، لیکن تشدد، سرکاری و نجی املاک کی تباہی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کو بنیادی حقوق کے نام پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 9 اور 10 مئی کے واقعات کو عدالت نے قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا اور کہا کہ ایسے اقدامات کا سخت مگر آئینی ردعمل ضروری ہے۔

جسٹس مظہر نے لکھا کہ  ’قانون کو ختم کرنے کے بجائے بچایا جانا چاہیے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ قانون ساز نہیں، لیکن اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی آئینی تشریح یقینی بنائے۔

یہ فیصلہ ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس میں عدالت نے قومی سلامتی اور شہری آزادیوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ عدالت نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی خودمختاری کو تسلیم کیا، لیکن شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو بھی لازم قرار دیا۔

ریڈنگ ڈاؤن’ کا نادرست استعمال

جسٹس امین الدین نے کہا کہ 23 اکتوبر کے فیصلے میں جس عدالتی تشریحی طریقہ ‘ریڈنگ ڈاؤن’ کو استعمال کیا گیا، وہ اس موقع پر غیر موزوں تھا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ‘ریڈنگ ڈاؤن’ ایک عدالتی احتیاط کا طریقہ ہے جو کسی مبہم قانون کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی محدود تشریح کرتا ہے۔ لیکن اسے کسی واضح آئینی شق میں نئی شرائط شامل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ 23 اکتوبر کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 8(3)(a) کے غیر مبہم متن کو نظرانداز کرتے ہوئے، عدالت کی مرضی کو آئینی حکم پر ترجیح دینے کی کوشش کرتا ہے، جو کہ آئینی تشریح کی حد سے تجاوز ہے اور آئینی ترمیم کے دائرہ کار میں داخل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا کام قانون کی تشریح ہے، قانون سازی نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 8(3)(a) ایک خودمختار آئینی شق ہے، جو واضح طور پر مسلح افواج کے لیے بنائے گئے قوانین کو بنیادی حقوق کی شقوں سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے۔ یہ آئینی فریم ورک کی جانب سے ایک شعوری اور دانستہ قانون سازی کا فیصلہ ہے۔

اسی ضمن میں آرٹیکل 8(5) کو بطور ’قید‘ شامل کرنا نظریاتی اور متنی لحاظ سے غلط ہے۔ آرٹیکل 8(5) ہنگامی حالات میں حقوق کی معطلی سے متعلق ہے اور یہ کسی صورت میں آرٹیکل 8(3)(a) کی مستقل آئینی استثنیٰ کو ختم نہیں کر سکتا۔

مزید پڑھیں:آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملزم کی حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہوگی، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس امین الدین نے کہا کہ آرٹیکل 245 مسلح افواج کو پاکستان کے دفاع اور سول اتھارٹی کی مدد میں کردار ادا کرنے کی اجازت دیتا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ آئین ایک علیحدہ نظامِ قانون اور فوجی نظم و ضبط کے دائرے کو تسلیم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہریوں پر فوجی عدالتوں کا عدالتی اختیار آئین کے اختیارات کی تقسیم  (سیپریشن آف پاور) کے اصول کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور آرٹیکل 175(3) فوجی عدالتوں کے قیام یا عملداری سے متاثر نہیں ہوتا۔

جسٹس محمد علی مظہر کا اضافی نوٹ

دوسری جانب، جسٹس محمد علی مظہر نے اگرچہ فیصلے سے اتفاق کیا، لیکن اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ سیکشن 2(d)(i) اور (ii) کے تحت مخصوص جرائم میں شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کوئی نئی بات نہیں ہے۔

انہوں نے لکھا کہ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ کی وہ دفعات جو مخصوص شہریوں پر فوجی عدالتوں کا دائرہ اختیار بڑھاتی ہیں، کئی دہائیوں سے نافذ ہیں اور انہیں مختلف ادوار کی قانون ساز اسمبلیوں کی خاموش منظوری اور سپریم کورٹ کی جانب سے عملی طور پر تسلیم کیا گیا۔

جسٹس مظہر نے کہا کہ چونکہ ان دفعات کو ماضی میں چیلنج نہیں کیا گیا یا انہیں غیر آئینی قرار نہیں دیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں طویل عرصے سے آئینی دائرے میں درست اور مؤثر سمجھا جاتا رہا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ سوال صرف 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد اُس وقت نمایاں ہوا جب شہریوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات عوامی اور سیاسی توجہ کا مرکز بنے۔ اس تناظر میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا اصل مسئلہ قانون میں ہے، یا پھر حالیہ ہنگامی صورتحال نے ایک ایسا عدالتی جائزہ پیدا کیا ہے جو ماضی کی مستحکم آئینی تشریح سے متصادم ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *