شمالی افریقی ملک تیونس میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں بچوں سمیت 40 افراد ہلاک ہوگئے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تیونس کے حکام کا کہنا ہے کہ کشتی ساحلی شہر مہدیہ میں ڈوبی جس میں 70 افراد سوار تھے، 30 کو بچالیا گیا ہے جب کہ 40 لاشوں کو بھی نکال لیا گیا ہے۔
دارالحکومت تیونس سے میڈیا رپورٹ کے مطابق تمام تارکینِ وطن کا تعلق افریقی ممالک سے بتایا گیا ، حکام کا کہنا ہے کہ یہ اس سال خطے میں پیش آنے والے بدترین سمندری حادثات میں سے ایک ہے۔
تیونس ہر سال ہزاروں افریقی تارکین وطن کے لیے یورپ سمندر کے راستے پہنچنے کا ایک اہم گزرگاہ ہے، جس کا ساحل اطالوی جزیرے لیمپیڈوسا سے تقریباً 145 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک 55 ہزار سے زائد غیر قانونی تارکین وطن اٹلی پہنچ چکے ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثریت نے سفر کا آغاز لیبیا سے کیا، جبکہ تقریباً 4 ہزار افراد تیونس سے روانہ ہوئے۔
بین الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کے مطابق وسطی بحیرۂ روم کا راستہ خاص طور پر خطرناک سمجھا جاتا ہے، جہاں 2014 سے اب تک 32 ہزار 803 افراد ہلاک یا لاپتا ہو چکے ہیں۔
یورپی یونین کی جانب سے غیر قانونی ہجرت کو روکنے کی بڑھتی ہوئی کوششوں کے باعث، بہت سے غیر قانونی تارکین وطن خود کو تیونس میں پھنسے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ 2023 میں تیونس نے یورپی یونین کے ساتھ 29 کروڑ ڈالر کا معاہدہ کیا، جس میں سے تقریباً نصف رقم غیر قانونی ہجرت سے نمٹنے کے لیے مختص کی گئی۔
اٹلی کی سخت گیر دائیں بازو کی حکومت کی جانب سے حمایت یافتہ یہ معاہدہ تیونس کی صلاحیت کو مضبوط کرنے کے لیے تھا تاکہ وہ کشتیوں کو اپنے ساحل سے روانہ ہونے سے روک سکے۔