پاکستان نے مغربی کنارے میں اسرائیلی توسیح منصوبہ مسترد کردیا

پاکستان نے مغربی کنارے میں اسرائیلی توسیح منصوبہ مسترد کردیا

پاکستان نے اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے کے بعض حصوں پر اپنی نام نہاد ’خودمختاری‘ کو توسیع دینے کی کوششوں کی شدید مذمت کی ہے۔ دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ یہ اقدام بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور فلسطینی عوام کے ناقابلِ تنسیخ حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا بھارت-افغان مشترکہ بیان پر شدید تحفظات کا اظہار، افغان سفیر کی دفتر خارجہ طلبی

جمعرات کو جاری کیے گئے بیان میں ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ قابض طاقت کی پارلیمان میں پیش کیے گئے مسودۂ قانون کے ذریعے اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر اپنے قوانین لاگو کرنے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات کو روکنے اور قابض افواج کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرانے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔

دفترِ خارجہ نے واضح کیا کہ اس نوعیت کے اشتعال انگیز اور غیر قانونی اقدامات خطے میں امن و استحکام کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ پاکستان نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ علاقائی اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر فلسطینی عوام کے حقوق، بالخصوص ان کے حقِ خودارادیت کے تحفظ اور انصاف کے قیام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد، خودمختار اور قابلِ عمل فلسطینی ریاست کے قیام کی غیر متزلزل حمایت کرتا ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔

یہ ردعمل ایک روز بعد سامنے آیا جب اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) نے ایک متنازع مسودۂ قانون کی ابتدائی منظوری دی، جس کے ذریعے اسرائیلی قوانین کو مقبوضہ مغربی کنارے پر لاگو کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

 ووٹنگ کے دوران 120 ارکان میں سے 25 نے بل کے حق میں جبکہ 24 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ اسی روز ایک اور بل، جس میں معالیہ ادومیم نامی غیر قانونی بستی کے اسرائیل میں انضمام کی تجویز تھی، بھی 9 کے مقابلے میں 31 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔

مزید پڑھیں:پاکستان طاقت کے استعمال سے متعلق اپنے مؤقف پر قائم ہے، دفتر خارجہ کا بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان پر سخت ردعمل

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کی جماعت لیکود نے اس قانون کی حمایت نہیں کی۔ یہ بل حکومتی اتحاد سے باہر قانون سازوں نے پیش کیا تھا۔

اس پیش رفت پر ردعمل دیتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام سے باز رہنے کی تنبیہ کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات حالیہ غزہ امن معاہدے کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں طے پایا تھا۔ روبیو نے کہا کہ ’صدر واضح کر چکے ہیں کہ اس وقت ہم انضمام کی کسی بھی کوشش کی حمایت نہیں کر سکتے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد اور پارلیمان میں ہونے والی قانون سازی خطے میں قیامِ امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے، تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ امن معاہدہ برقرار رہے گا۔

واضح رہے کہ 2024 میں اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں، بشمول مغربی کنارے، پر قبضہ اور وہاں کی آبادیاں غیر قانونی ہیں اور انہیں جلد از جلد ختم کیا جانا چاہیے۔

فی الحال فلسطینی اتھارٹی مقبوضہ مغربی کنارے کے چند علاقوں میں محدود خوداختیاری کے ساتھ انتظامی امور چلاتی ہے، جبکہ اسرائیلی بستیوں کی توسیع خطے میں کشیدگی کا مستقل باعث بنی ہوئی ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *