فلسطینی گروپوں کا غزہ کا انتظام غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے سپرد کرنے پر اتفاق، حماس کی بھی رضامندی

فلسطینی گروپوں کا غزہ کا انتظام غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے سپرد کرنے پر اتفاق، حماس کی بھی رضامندی

فلسطینی گروہوں نے غزہ کی انتظامی ذمہ داری ایک غیر سیاسی اور عبوری ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے سپرد کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ حماس نے بھی اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ جنگ کے بعد غزہ پر حکومت نہیں کرے گی، تاہم اپنے جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنے کی شرائط قبول نہیں کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی جیلوں سے 1968 فلسطینی قیدی رہا، خطے میں خوشی کی لہر، جذباتی مناظر، تل ابیب میں سخت غصہ اور احتجاج

حماس کی ویب سائٹ پر جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق قاہرہ میں ہونے والے اجلاس میں تمام فلسطینی دھڑوں نے اتفاق کیا کہ غزہ کی انتظامی ذمہ داری ایک عبوری فلسطینی کمیٹی کے پاس ہوگی، جو آزاد ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہوگی۔ یہ کمیٹی عرب ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے عوامی خدمات، بنیادی ڈھانچے کی بحالی، صحت، تعلیم اور انسانی امداد جیسے معاملات کی نگرانی کرے گی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ تمام فلسطینی دھڑے ایک مشترکہ قومی مؤقف تشکیل دینے اور فلسطینی کاز کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے پر متفق ہیں۔ مزید یہ کہ جلد ہی تمام قوتوں اور جماعتوں کا ایک جامع اجلاس طلب کیا جائے گا تاکہ ایک نئی قومی حکمتِ عملی وضع کی جا سکے اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو فعال بنایا جا سکے، جو فلسطینی عوام کی واحد نمائندہ تنظیم ہے۔

قاہرہ اجلاس میں مصر کے انٹیلیجنس سربراہ حسن رشاد نے کلیدی کردار ادا کیا اور حماس، فتح، اسلامی جہاد، ڈیموکریٹک فرنٹ اور پاپولر فرنٹ سمیت تمام اہم فلسطینی گروپوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔

دوسری جانب حماس اور فتح کے وفود نے امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی منصوبے کے دوسرے مرحلے پر بھی بات چیت کی۔ دونوں جماعتوں نے اندرونی اتحاد مضبوط کرنے اور غزہ میں سیاسی ہم آہنگی کے فروغ پر اتفاق کیا۔

یاد رہے کہ حماس اور فتح کے درمیان 2006 کے انتخابات کے بعد سے سیاسی اختلافات چلے آ رہے ہیں، جنہوں نے فلسطینی وحدت کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی۔ تاہم دسمبر 2024 میں دونوں جماعتوں نے جنگ کے بعد غزہ کی مشترکہ انتظامیہ کے قیام کے لیے ایک کمیٹی بنانے پر اصولی اتفاق کیا تھا۔

امریکی ردِ عمل اور بین الاقوامی فورس کا منصوبہ

امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی غزہ میں جنگ بندی کے نفاذ کے لیے ایک بین الاقوامی فورس تعینات کی جا سکے گی۔ روبیو نے اسرائیل کے دورے کے دوران کہا کہ جنگ بندی کے بعد علاقائی استحکام کے لیے فورس کی تشکیل ناگزیر ہے۔ ان کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں طے پانے والے معاہدے کے تحت سیکیورٹی کی نگرانی ایک بین الاقوامی فورس کرے گی۔

مزید پڑھیں:غزہ جنگ بندی مذاکرات، حماس نے سرکردہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی سمیت متعدد شرائط رکھ دیں

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اس فورس کی تشکیل میں ویٹو کا اختیار حاصل ہوگا، اور اسرائیل نے ترکیہ کی ممکنہ شمولیت پر اعتراض بھی کیا ہے۔ دوسری جانب انڈونیشیا نے امن فورس بھیجنے کی آمادگی ظاہر کی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات پہلے ہی جنگ بندی کی نگرانی میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔

امریکی فوجی اور اتحادی ممالک کے تقریباً 200 اہلکار اس وقت جنوبی اسرائیل میں قائم سول ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر میں تعینات ہیں، جہاں سے جنگ بندی کے نفاذ اور امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ روبیو کے مطابق امریکہ ممکنہ طور پر اقوامِ متحدہ کے ذریعے اس فورس کے لیے مینڈیٹ حاصل کرے گا، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یو این آر ڈبلیو اے (انروا) کو اس عمل میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

غزہ کی صورتحال

دوسری جانب غزہ میں تباہ کن اسرائیلی کارروائیوں کے بعد ہزاروں بے گھر فلسطینی اپنے تباہ شدہ علاقوں میں واپسی کی کوشش کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 68 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ لاکھوں افراد بے گھر اور شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قاہرہ میں ہونے والا یہ اتفاق فلسطینی سیاسی عمل کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم ہے، تاہم اس کے پائیدار نتائج کا انحصار بین الاقوامی ضمانتوں، اسرائیلی رویّے اور اندرونی فلسطینی اتحاد پر ہوگا۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *