افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے خیبر میں طورخم سرحد کو آج کھول دیا گیا ، امیگریشن اور کسٹم عملے کو صبح 7 بجے طلب کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر خیبر بلال شاہد راؤ کا بتانا ہے کہ سرحد دو طرفہ تجارت کے لیے بدستور بند رہے گی، بارڈر پر اس وقت ہزاروں افغان مہاجرین موجود ہیں.
اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے بھی گزشتہ روز کہا تھا تجارت کیلئے پاک افغان سرحدیں کھولنے کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد یہ گزرگاہ 20 اکتوبر سے بند ہے ، تجارت، آمدورفت اور معمولاتِ زندگی سب متاثرہے، دونوں جانب ہزاروں شہری پھنسے ہوئے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق چمن میں سرحد پر کام کرنے والے مزدوروں کی تنظیم کے رہنما صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ لوگوں کو قطراور ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد حالات بہتر ہونے اور سرحد کھلنے کی امید تھی مگر مذاکرات کی ناکامی کے بعد مایوسی بڑھ گئی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر واقع چمن اور طورخم کی مرکزی گزرگاہوں سمیت تمام راستے بند ہیں، چمن کی مرکزی گزرگاہ ’بابِ دوستی‘ پر امیگریشن، دوطرفہ تجارت اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سب معطل ہیں۔
عام دنوں میں چار سے پانچ ہزار افراد روزانہ پاسپورٹ پر چمن پاک افغان سرحد پار کرتے تھے جبکہ ہفتے کے اختتام پر یہ تعداد آٹھ سے 10 ہزار تک پہنچ جاتی تھی۔
افغانستان میں علاج کی سہولیات کے فقدان کے باعث وہاں کے مریض بہترعلاج معالجے کے لئے پاکستان کا رخ کرتے ہیں، ان کی سہولت کے لئے بارڈر پر پاکستان کی جانب سے اسپتال بھی قائم کیا گیا ہے جہاں ابتدائی معائنے کے بعد ریفر کیا جاتا ہے۔
حالیہ سرحد بندش سے بیمار افراد سب سے زیادہ متاثرہوئے ہیں جو علاج کے لئے پاکستان اورعلاج کے بعد واپس جانے کے لیے دونوں جانب سرحد کھلنے کا انتطار کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ 11 اور 12 اکتوبر 2025 کی درمیانی شب افغان طالبان اور بھارتی سرپرستی میں سرگرم فتنہ الخوارج نے پاکستان پر پاک افغان سرحد کے مختلف مقامات پر بلااشتعال حملہ کیا تھا ۔ دشمن کی بزدلانہ کارروائی میں فائرنگ اور محدود نوعیت کے حملے شامل تھے، جس کا مقصد سرحدی علاقوں کو غیر مستحکم کر کے دہشت گردی کو فروغ دینا اور اپنے ناپاک عزائم کو تقویت دینا تھا۔
پاک افغان بارڈر پر افغانستان کی طرف سے بلا اشتعال فائرنگ پر پاک فوج نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے 200 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا، جبکہ جھڑپوں کے دوران پاکستان کے 23 بہادر جوانوں نے جام شہادت نوش کیا اور 29 فوجی زخمی ہوئے تھے۔
بعد ازاں، طالبان رجیم کی درخواست پر پاکستان نے 48 گھنٹوں کے لیے سیز فائر پر رضامندی ظاہر کی تھی جس کے بعد کشیدگی کے خاتمے کے لیے دوحا مذاکرات ہوئے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ چند ماہ قبل اُس وقت تعطل کا شکار ہو گیا تھا جب سرحدی علاقوں میں دہشتگرد حملوں میں اضافہ ہوا, پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملے افغان سرزمین سے ہونے والی کارروائیوں کا نتیجہ ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان نے ترکیہ اور قطر کی درخواست پر افغانستان سے مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی ، ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد، جو ابتدائی طور پر وطن واپسی کے لیے تیار تھا، نے اب استنبول میں مزید قیام کا فیصلہ کیا ہے تاکہ بات چیت کے عمل کو دوبارہ آگے بڑھایا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق اگر موجودہ مذاکرات مثبت سمت میں آگے بڑھے تو مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان سیکورٹی تعاون، انٹیلی جنس شیئرنگ اور سرحدی انتظامات سے متعلق ایک نیا فریم ورک طے پانے کا امکان ہے۔