معروف اداکار فیروز خان نے اپنی ذاتی زندگی، عدالتوں کے معاملات اور سوشل میڈیا کی شدید تنقید کے دوران گزرنے والے مشکل ترین دور سے متعلق اہم انکشافات کیے ہیں۔
نجی ٹی وی کے یوٹیوب چینل پر پوڈ کاسٹ میں اداکار نے بتایا کہ ذاتی زندگی کے تنازعات نے انہیں اس حد تک توڑ دیا تھا کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی چھوڑ کر درزی بننے تک کا سوچنے لگے تھے۔
فیروز خان نے انٹرویو میں بتایا کہ ’مجھے میری نجی زندگی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ میں نے سوچا تھا کہ درزی بن جاؤں گا، کپڑے بیچ کر گزارا کروں گا‘۔
اداکار نے بتایا کہ شدید ذہنی دباؤ کے دوران وہ ایک بار ٹوائلٹ میں بے ہوش ہو کر گر پڑے تھے اور زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں مرنے کے قریب تھا، مجھے اپنے بچوں کی بہت یاد آ رہی تھی کیونکہ اس وقت مجھے ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی‘۔
اداکار نے اپنی پہلی شادی کے حوالے سے بھی بات کی۔ فیروز خان کی پہلی شادی 2018 میں علیزا سلطان سے ہوئی تھی، جو 2022 میں طلاق پر ختم ہوگئی۔ طلاق کے دوران بچوں کی حوالگی کے کیس میں علیزا سلطان نے فیروز خان پر سنگین گھریلو تشدد کے الزامات لگائے تھے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر اداکار کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
فیروز خان کے مطابق یہ وہ دور تھا جب وہ سوشل میڈیا ٹرولنگ، عدالتی مقدمات اور بچوں سے دوری کے باعث شدید اضطراب کا شکار رہے۔
انٹرویو میں اداکار نے مزید بتایا کہ ایک موقع پر وہ ذہنی طور پر اتنے کمزور ہو گئے تھے کہ انہوں نے خود کو نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی۔ تاہم ان کے مطابق والدہ کی دعاؤں نے انہیں سنبھالا۔ ‘جب میں بے ہوش تھا، امی نے میرے پاس بیٹھ کر آیت الکرسی پڑھی۔ انہی کی دعا تھی کہ میں دوبارہ ہوش میں آیا اور زندگی کی طرف واپس آیا، ورنہ شاید میں آج یہاں نہ ہوتا‘۔
فیروز خان نے کہا کہ ماضی کی تلخیاں اب بھی انہیں متاثر کرتی ہیں، لیکن وہ اپنی نئی ازدواجی زندگی میں سکون محسوس کرتے ہیں۔ جون 2024 میں انہوں نے ڈاکٹر زینب سے دوسری شادی کی اور ان کے مطابق وہ اب آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دور انہیں اندر سے بدل چکا ہے اور اب وہ زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھتے ہیں۔
اداکار نے انٹرویو میں اس بات پر زور دیا کہ سوشل میڈیا کے بے لگام الزامات اور غیر ضروری تنقید کسی بھی شخص کو شدید ذہنی اذیت تک پہنچا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ بغیر تحقیق کے کسی کی ذاتی زندگی پر رائے نہ دیں کیونکہ اس کے اثرات بہت سنگین ہو سکتے ہیں۔