پشاور(عرفان خان) ریاست کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف ”عزم استحکام آپریشن“ شروع کرنے کا فیصلہ پہلی بار نہیں ہو ا۔ اس سے قبل بھی اس طرح کے اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں۔جس کے دور رس نتائج سامنے آئے ہیں۔ماضی میں حکومت کی جانب سے متعددشدت پسند تنظیموں کیساتھ تحریر ی معاہدے کئے گئے تاہم یہ تمام معاہدے ناکام ثابت ہوئے۔
تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ ریاست کی جانب سے جب بھی کالعدم تنظیموں کیساتھ مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس عمل کو ابتداء ہی سے سبوتاژ کیا گیا اور امن کے نام پر ہونے والے مذاکرات یا معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی۔ 2001ء سے جون2024ء تک امن معاہدوں کی ناکامی پر فوج نے شدت پسندوں کے خلاف مجموعی طور پر12ملٹری آپریشن کرائے ہیں۔
ریاست اور شدت پسند تنظیموں کے مابین ہونے والے ناکام مذاکرات:
شکئی امن معاہدہ:
افغانستان سے القاعدہ کے جنگجو کی جنوبی وزیرستان منتقلی کے بعد پاکستان نے”کلوشہ“آپریشن شروع کیا۔دونوں جانب سے بھاری نقصان اٹھانے کے بعد بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور 24اپریل 2004ء کو جنوبی وزیرستان میں شدت پسند تنظیم کے بانی نیک محمد کیساتھ امن معاہدہ کیا گیا جس کو شکئی امن معاہدہ کا نام دیا گیا۔پاکستان میں سکیورٹی اداروں اور عوام مخالف شدت پسندوں کیساتھ یہ پہلا معاہدہ تھا۔
نیک محمد پر الزام تھا کہ ان کی پناہ میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عرب، ازبک، چیچن اور افغان جنگجو تھے جبکہ افغان طالبان سے منسلک افراد بھی شامل تھے۔ شکئی امن معاہدے کے مطابق پاکستان نے یہ شرط قبول کی کہ وہ نیک محمد کے گرفتار ساتھیوں کو رہا کرے گا۔ریاست پاکستان نے نیک محمد سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر ملکی جنگجووں کی تفصیل فراہم کرینگے۔معاہدے پر دستخط کے بعد نیک محمد نے غیر ملکی جنگجووں کو فوج کے حوالے کرنے سے انکار کیا اورشکئی معاہدہ دستخط ہونے کے بعد ہی ختم ہو گیا اور فوج نے جون2004ء میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔
سراروغہ امن معاہدہ:
امن کے قیام کیلئے دوسرا امن معاہدہ کالعدم تنظیم کے سربراہ بیت اللہ محسود کیساتھ فروری2005ء میں جنوبی وزیرستان میں سراروغہ میں ہوا۔یہ معاہدہ 6 شقوں پر مشتمل تھا۔ معاہدے کے مطابق بیت اللہ محسود نے حکومتی اہلکاروں اور دفاتر پر حملے نہ کرنے اور غیر ملکی شدت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے بدلے میں ان کیلئے ساتھیوں سمیت معافی کا اعلان کیا گیا۔
اس معاہدے کا بنیادی مقصد طالبان کا شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں کی جانب پھیلاؤ کو روکنا تھا۔ اس دوران طالبان اور فوج کے درمیان کارروائیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا جبکہ شہری علاقوں میں خودکش حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔اس دوران بیت اللہ محسود کی سرپرستی میں ان علاقوں میں موجود کئی گروہوں نے تحریک طالبان پاکستان چیپٹر کا اعلان کیا۔فوج نے اس دوران آپریشن”ٹرائی سٹار“ کے تسلسل میں جنوری 2008ء میں آپریشن ”زلزلہ“کا آغاز کیا۔بعد میں یہاں آپریشن ”راہ نجات“ کرکے علاقوں کو شدت پسندوں سے صاف کرنا شروع کیا۔ اوریوں دوسرا بڑا امن معاہدہ بھی ناکام ثابت ہوا۔
سوات امن معاہدہ:
سیاحتی مقام سوات میں 2001ء سے شدت پسندی کے واقعات شروع ہوئے تھے۔ ملا ریڈیو کے نام سے شہرت پانے والے ملا فضل اللہ نے2007ء میں لال مسجد واقعہ کے بعد حکومت اور بالخصوص فوج کے خلاف اپنے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے خطبہ دینا شروع کیا۔ لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو جلایا گیا۔اور ملا فضل اللہ نہ صرف سوات بلکہ پاکستان میں شریعت نافذکرنے کا مطالبہ کیا۔ اکتوبر 2007ء میں فوج نے سوات میں آپریشن ”راہ حق“کا آغاز کیا۔
2008ء میں اس وقت کی عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے سوات میں قیام امن کیلئے ملا فضل اللہ سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا اور مئی2008ء میں 16نکات پر مشتمل تیسرا بڑا امن معاہدہ ہوا۔ خیبر پختونخواکی اس وقت کی حکومت فروری 2009 میں سوات میں طالبان کی شریعت پر مبنی ’نظام عدل‘ نافذ کرنے پر مان گئی جس کے بعد ملا فضل اللہ نے سیز فائر کا اعلان کیا تاہم یہ معاہدہ بھی ناکام ہو گیا۔ ملا فضل اللہ اور صوفی محمد نے ہتھیاڑ ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پاکستانی فوج پہلے ان علاقوں سے نکل جائے اور ان کے گرفتار ساتھیوں کو رہا کیا جائے۔
معاہدہ کی ناکامی پر فوج نے آپریشن”راہ راست“کا آغاز کیا۔ ملا فضل اللہ اپنے ساتھیوں سمیت سوات سے قبائیلی اضلاع فرار ہو گئے۔ اس جنگ میں طالبان کے ہمراہ فوج کے خلاف لڑنے والوں کیلئے نہ صرف عام معافی کا اعلان کیا گیا بلکہ ان افراد کو راہ راست پر لانے اور انہیں مفید شہری بنانے کے مراکز قائم کرکے ان کی نئے سرے سے تربیت کی۔
حافظ گل بہادر کیساتھ معاہدہ:
کئی ایسے معاہدے بھی ہیں جو تحریری طور پر نہیں کئے گئے۔ غیر تحریری معاہدوں میں سے ایک معاہدہ شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے حافظ گل بہادر کیساتھ کیا گیا۔مجاہدین کی سربراہی کرنے والے حافظ گل بہادر پر افغانستان میں حملوں کا الزام تھا۔اس وقت حافظ گل بہادر کا حقانی نیٹ ورک کیساتھ انتہائی اچھے تعلقات تھے جو امریکی فوج کے خلاف کاروائیاں کر رہے تھے۔معاہدہ کے مطابق حافظ گل بہادر گروپ کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ فوج اور شہریوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ یہ معاہدہ 2008 میں دوبارہ کیا گیا اور اس گروہ نے فوج کے خلاف کارروائیاں روک دیں۔
2014 میں جب پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا تو حافظ گل بہادر گروپ نے اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ افغانستان میں اپنی کارروائیاں روک کر پاکستان میں کاروائیں شروع کرینگے۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے طالبان سے بات چیت اور مذاکرات کے بیان کے بعد طالبان کے جس گروپ نے سیز فائر کا اعلان کیا تھا وہ حافظ گل بہادر گروپ تھا۔
منگل باغ کیساتھ معاہدہ:
اسی طرح کا ایک اور امن معاہدہ ضلع خیبر میں لشکر اسلام کے بانی منگل باغ اور انصار الاسلام گروپ کیساتھ بھی کیا گیا۔ یہ معاہدہ بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور ان گروپ کے خاتمے کیلئے ”آپریشن صراط مستقیم“ شروع ہوا۔2008ء میں ہی باجوڑ میں مولوی فقیرمحمد کیساتھ معاہدہ کیا گیا مگر یہ معاہدہ بھی نہ چل سکا اور بالآخر فوج کو”آپریشن شیر دل“کرنا پڑا۔
شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن:
2002سے اب تک پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز نے مجموعی طو ر پر 12فوجی آپریشن کرائے ہیں۔ پہلا آپریشن 2002ء میں وزیرستان میں القاعدہ کے خلاف آپریشن المیزان شروع کیا گیا۔ 2007ء میں سوات میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن راہ حق شروع کیا گیا۔ 2008ء میں ضلع خیبر میں لشکر اسلام کے خلاف آپریشن صراط مستقیم، 2008ء میں جنوبی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن زلزلہ، 2008ء میں باجوڑ میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن شیر دل، سوات میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن راہ راست کیا گیا۔
2009ء میں بونیر، لوئر دیر، سوات اور شانگلہ میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کالی آندھی، 2009ء ہی میں قبائلی اضلاع میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن راہ نجات اور 2009ء میں مہمند ایجنسی میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن بریخنا کا آغاز کیا گیا۔
ضلع کرم میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف 2011ء میں آپریشن کوہ سفید شروع کیا گیا۔
2014ء میں شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ، لشکر جھنگوی کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔ 2017ء میں ملک بھر میں شدت پسند تنظیموں تحریک طالبان پاکستان، بلوچستان لبریشن آرمی کے خلاف آپریشن رد الفساد شروع کیا گیا اور اب 2024ء میں ملک بھر میں شدت پسند عناصر تحریک طالبان پاکستان، بلوچستان لبریشن آرمی اور انتشاری ٹولے کے خلاف آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی ہے۔