افغانستان کی صورتحال اور خطے کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز پر غور کے لیے افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور روس کے خصوصی نمائندوں کا ایک اہم اجلاس تہران میں منعقد ہوا، جس میں پاکستان نے دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات پر دوٹوک اور مضبوط مؤقف اختیار کیا۔
پاکستانی وفد نے اجلاس میں واضح کیا کہ پاکستان کو سرحد پار دہشتگردی کے سنگین خدشات لاحق ہیں، جن کا سنجیدہ، مشترکہ اور عملی حل ناگزیر ہو چکا ہےتہران میں ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی خصوصی نمائندہ برائے افغانستان محمد صادق نے کی۔
وفد میں ایران میں پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو اور کابل میں تعینات پاکستانی سفیر عبیدالرحمٰن نظامانی بھی شامل تھے، اجلاس کا باقاعدہ آغاز ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کے کلیدی خطاب سے ہوا۔پاکستانی وفد نے اجلاس کے دوران اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں پائیدار استحکام نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ وفد نے کہا کہ اسلام آباد خطے میں امن، ترقی اور دیرپا سلامتی کے قیام کے لیے سنجیدہ اور تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا اور تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون کا خواہاں ہے۔
دوسری جانب ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے اثرات ایران پر بھی مرتب ہوں گے، کیونکہ ایران دونوں ممالک کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقائی عدم استحکام کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے خطے کو متاثر کرتا ہے۔اسماعیل بقائی نے طالبان حکومت کے تہران کانفرنس میں شریک نہ ہونے کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ ایسے علاقائی فورمز باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینے اور مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان اور ہمسایہ ممالک کے درمیان مکالمہ خطے کے امن کے لیے ناگزیر ہے۔اجلاس کے موقع پر پاکستان کے خصوصی نمائندہ محمد صادق کی ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات بھی ہوئی، جس میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی روابط، دوطرفہ تعاون اور خطے کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
عباس عراقچی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا اور خطے میں امن کے لیے پاکستان کے کردار کو سراہا۔ محمد صادق نے اجلاس کی میزبانی پر ایران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ مشاورت خطے میں امن، استحکام اور ترقی
کے لیے مثبت نتائج دے گی۔