ایبٹ آباد میں ڈاکٹر وردہ کے قتل کے کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، پولیس مقابلے میں مرکزی ملزم شمریز ہلاک ہو گیا، جو واقعے کے بعد ٹھنڈیانی کے جنگلات میں فرار ہو گیا تھا جبکہ دیگر چار ملزمان پہلے ہی پولیس کی حراست میں ہیں، ڈاکٹر وردہ کو 4 دسمبر کو بینظیر بھٹو ہسپتال ایبٹ آباد سے اغوا کیا گیا تھا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق مقتولہ کے قتل کی منصوبہ بندی سونے کے لیے کی گئی تھی،دو سال قبل ڈاکٹر وردہ نے ملزمہ ردا کو سونا دیا تھا جسے واپس کرنے سے ردا نے انکار کر دیا، مسلسل مطالبات کے بعد ردا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ڈاکٹر وردہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔
واقعے کے دن ردا نے ڈاکٹر وردہ کو اپنے زیر تعمیر گھر لے گئی، جہاں شمریز، ندیم اور اورنگ زیب موجود تھے مبینہ طور پر ندیم نے ڈاکٹر وردہ کو بے دردی سے قتل کیا چار دن بعد ڈاکٹر وردہ کی لاش ضلع کے نواحی علاقے سے برآمد ہوئی۔
مزید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ مرکزی ملزمہ ردا کے مختلف ناموں سے 16 بینک اکاؤنٹس تھے جن میں 70 تولے سے زائد سونا جمع تھ ۔ یہ سونا ڈاکٹر وردہ کی جانب سے امانت کے طور پر دیا گیا تھا، واقعے کے بعد ملزمان نے سونا غیر قانونی طریقے سے بینکوں میں رکھوایا۔
ایبٹ آباد پولیس کے مطابق قتل کے اس منصوبے میں مکمل سرد مہری اور پیشہ ورانہ انداز شامل تھا۔ شمریز کی ہلاکت کے بعد پولیس باقی ملزمان سے مزید شواہد حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
اس پیش رفت سے نہ صرف کیس کی سمت واضح ہوئی ہے بلکہ مقامی حکام نے بھی کہا ہے کہ انصاف کے تقاضے جلد پورے کیے جائیں گے تاکہ ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔