ہتھوڑا گروپ کہاں سے آیا؟ کیسے واردات کرتا تھا؟ تہلکہ خیز انکشافات

ہتھوڑا گروپ کہاں سے آیا؟ کیسے واردات کرتا تھا؟ تہلکہ خیز انکشافات

اسلام آباد (آزاد اسپیشل )اگر کوئی شخص پبلک مقام پر کسی دوسرے شخص کے سر پر ہتھوڑا مار کر کامیابی سے فرار ہو جائے تو ایسا شائد ایک یا دو بار ممکن ہو البتہ کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ دو سال تک مسلسل کوئی گروہ یہ کام کرتا رہے اور پکڑائی ہی نہ دے؟

بد قسمتی سے 80 کی دہائی میں وطن پاکستان میں ایسا ہو چکا ہے۔ ایک ایسا گروہ جس نے دو سال میں سینکڑوں لوگوں کے سر پر ہتھوڑے برسا کر انگنت معصوم جانیں لے لیں۔ لا تعداد خاندانوں کا سکون اجاڑ دیا اور دہشت کی وہ داستان رقم کی جسے سن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جائیں!

ذکر ہو رہا ہے بدنام زمانہ ‘ہتھوڑا گروپ’ کا جس نے 80 کی دہائی میں ظلم و بربریت کا ایسا دور متعارف کرایا جس میں مزدوروں، بھکاریوں حتیٰ کہ مسافروں تک کی جانوں کو نہ بخشا گیا۔ لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ آخر ان غریبوں سے ہتھوڑا گروپ کی کیا دشمنی تھی؟ کیا یہ نفسیاتی بیماروں کا گروہ تھا یا کوئی بین الاقوامی سازش تھی؟ خوف اور دہشت کی یہ کہانی ایک ایسی داستان ہے جسے یاد کر کے لوگ آج بھی کانپ جاتے ہیں۔

ہتھوڑا گروپ کہاں سے آیا؟ کیسے واردات کرتا تھا؟ کیا پنجاب اور کراچی میں ہونے والی وارداتوں میں ایک ہی گروپ ملوث تھا؟ کیا یہ گروہ قانون کی پکڑ میں آیا یا نہیں؟ ان تمام حقائق سے آج ہم پردہ اٹھائیں گے۔

یہ اپریل 1985 کا واقعہ ہے۔ کلفٹن کے ایک پل کے نیچے سونے والے تین بے گھر افراد کے سر کچل دیئے جاتے ہیں۔۔۔ دو ہلاک جبکہ تیسرا شخص شدید زخمی حالت میں ملتا ہے۔ یہ کراچی میں اس نوعیت کا پہلا حملہ تھا۔ دو دن بعد اس مقام سے چند کلومیٹر دور کالا پل کے علاقے سے مزید دو لاشیں ملتی ہیں جنہیں اسی انداز میں سر کچل کر ہلاک کیا گیا تھا۔ ایک ماہ کے دوران ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 9 کو پہنچ جاتی ہے۔ پھر گولیمار میں واقع ایک گھر سے بچوں سمیت سات لوگوں کو لاشیں ملتی ہیں جنہیں اسی انداز میں قتل کیا گیا۔ کاروائیاں سڑکوں سے گھروں تک پھیل چکی تھیں۔

گھروں کے باہر، سڑک یا فٹ ہاتھ پر سوتے شہری، مزدور ، بھکاری، دکانوں اور چھوٹے ہوٹلوں کے ملازمین لگاتار ایسی ہولناک وارداتوں کا نشانہ بننے لگے۔ دہشت کی ایسی لہر آئی کہ فیڈرل بلیو ایریا کی ایک گلی میں سوئے آٹھ مزدور ایک ہی دن موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ سال کے اختتام تک جب یہ سلسلہ رکنے کے بجائے مزید بڑھنے لگا تو حکومت نے خفیہ اداروں سے مدد طلب کر لی۔۔۔ پولیس کا اب بھی یہی خیال تھا کہ گلیوں میں سونے والے لوگ دراصل جرائم پیشہ گروہوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اس لئے انہیں ٹارگٹ کیا جاتا ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ کسی سیریل کلر کی کاروائی ہو سکتی ہے۔ لیکن 1985 میں ہی برنس روڈ پر ایک بھکاری پر ہونے والے ناکام حملے نے تفتیش کا رخ یکسر تبدیل کر دیا۔ یہاں سے کہانی میں وہ موڑ آیا جو آپ کو چونکا دے گا۔

ڈان اخبار کی خبر کے مطابق حملے میں بچ جانے والے بھکاری نے پولیس کو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ وہ سو رہا تھا، قریب آنے والی ایک گاڑی کی آواز سے اٹھ بیٹھا۔۔۔ اسی دوران سفید کپڑوں میں ملبوس چار افراد جنھوں نے سیاہ نقابوں سے چہرے ڈھانپ رکھے تھے، اس کے قریب پہنچے اور اُن میں سے ایک شخص نے ہتھوڑے‘ سے اس کے سر پر ضرب لگائی۔۔۔ وہ گر گیا اور حملہ آور اسے مردہ سمجھ کر فرار ہو گئے۔۔۔ یہ بیان ریکارڈ پر آنے کے بعد پولیس نے ایک منظم گروہ کے خلاف تفتیش کا آغاز کر دیا، جسے بعد میں کرائم رپورٹرز نے ‘ہتھوڑا گروپ’ کا نام دیا۔

1986 کے وسط تک ہتھوڑا گروپ کی کاروائیوں میں ہلاکتوں کی تعداد 100 تک پہنچ چکی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب پشاور میں افغان جنگ کی وجہ سے بم دھماکے معمول بن گئے تھے، مگر پنجاب اور کراچی میں ہتھوڑا گروپ نے دہشت پھیلا رکھی تھی۔ افغان جنگ کو لے کر اخبارات میں مختلف سازشی تھیوریاں سامنے آ رہی تھیں۔ مذہبی حلقے ہتھوڑا گروپ کو روس اور افغانستان کے خفیہ اداروں کی سازش قرار دیتے تھے۔ اس کے مقابلے میں لبرل طبقہ ضیاء الحق حکومت پر دہشت پھیلانے کا الزام لگاتا تاکہ عوام کو احتجاج سے باز رکھا جا سکے، جبکہ کچھ انگریزی اخباروں نے ایک شیطانی فرقے کی تصویریں تک جاری کر دیں۔

جتنے منہ اتنی ہی باتیں تھیں۔ تاہم سرکاری سطح پر ہتھوڑا گروپ کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان نہیں جاری کیا گیا۔ اس وقت حکومت کیا سوچ رہی تھی؟ اس حوالے سے سابق آئی جی چوہدری یعقوب کا کچھ سال پہلے دیا گیا بیان اہم ہے۔ چوہدری یعقوب 1986 میں ایس ایس پی راولپنڈی تھے۔ اُن کے مطابق 11 اگست 1986 کو وہ ایوان صدر میں موجود تھے جب ڈھوک کھبہ راولپنڈی میں ایک ہی خاندان کے 11 لوگوں کے قتل کی دل دہلا دینے والی اطلاع ملی، جنہیں سر کچل کر مارا گیا تھا۔

اُس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے ہتھوڑا گروپ کی اس کاروائی سے متعلق فوری رپورٹ طلب کی۔ صدر مملکت کو پولیس کی جانب سے دی گئی رپورٹ میں سیریل کلر یا افغان خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ جس پر صدر مملکت نے افغان خفیہ ادارے کے خدشے کو زیادہ اہمیت دی۔ لیکن صدر کے خدشے کے برعکس راولپنڈی اور اس کے مضافات میں ہونے والی کاروائیوں میں ایک سیریل کلر ملوث پایا گیا۔ البتہ کراچی میں ہونے والی کاروائیوں میں صدر کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ جس کی تفصیل ہم آگے چل کر آپ کو دیں گے۔

راولپنڈی کی بات کریں تو یہاں اس حد تک خوف و ہراس پھیل چکا تھا کہ لوگوں نے گھروں اور گلی کوچوں میں پہرہ دینا شروع کر دیا تھا۔ اکثر گھروں میں مرد رات بھر حفاظت کے لیے چھتوں پر موجود رہتے۔ ان حفاظتی اقدامات کے باوجود قتل و غارت کے واقعات جاری رہے لیکن بل آخر ٹیکسلا میں ایسی ہی واردات کرتے ہوئے شہریوں نے ایک ملزم پکڑ لیا جہاں سے کیس ایک نئی جانب مڑ گیا۔

سابق آئی جی پنجاب چوہدری یعقوب کے مطابق اس ملزم نے ہتھوڑے کے ذریعے 99 لوگوں کے قتل کا اعتراف جرم کیا۔ اُس وقت کے ڈی ٓآئی جی افضل شگری نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک نفسیاتی ’سیریل کلر‘ تھا جو وارداتوں کے بعد خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی وغیرہ تو نہیں کرتا تھا مگر نچلے جسمانی حصے سے کپڑے ساتھ لے جاتا تھا۔ مگر اس کا کراچی کے ’ہتھوڑا گروپ‘ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یعنی اب یہ بات تو واضح ہو گئی کہ راولپنڈی ، کشمیر اور ہزارہ ڈویژن کے واقعات کا کراچی میں ہونے والی ہتھوڑا گروپ کی کاروائیوں سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔

اب واپس چلتے ہیں کراچی، جہاں 1986 کے اختتام تک سرکاری سطح پر کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس ’ہتھوڑا گروپ‘ کی حقیقت کیا تھی۔ عوام شدید عدم تحفظات کا شکار تھی۔ ملک کے کئی شہروں میں ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے جہاں لوگوں نے ہتھوڑا گروپ کی آڑ میں ذاتی انتقام لیا۔ حکومت پر دباو بڑھ رہا تھا کیونکہ اس نوعیت اور اس اسکیل کی دہشتگردی ملک میں پہلے نہیں دیکھی گئی تھی۔ تمام ایجنسیاں ہائی الرٹ پر تھیں اور بالآخر ایک ایجنسی کو کافی تگ و دو کے بعد ایک انتہائی اہم ٹپ ملی، جس کی بنیاد پر ایک ملزم کی نگرانی شروع کر دی گئی۔

یہ جان کر آپ حیران ہوں گےکہ عمار نامی ملزم لیبیا کا شہری تھا، جو پاک لیبیا ہولڈنگ انویسٹمنٹ کمپنی کا ملازم تھا، البتہ مشکوک حیثیت کے باوجود اسے تا وقت قانون کے کٹہرے میں لانا ممکن نہ تھا اور وجہ تھی اس کی ‘ڈپلومیٹک امیونٹی’… اسی لئے کئی ہفتوں تک ملزم کو زیر نگرانی رکھا گیا۔ شواہد اکھٹے کئے گئے اور بالآخر جب گرفتاری کا مرحلہ آیا تو اس کام کے لئے ایس ایس جی کمانڈو کرنل سعید کا انتخاب کیا گیا۔

کرنل سعید ’ہتھوڑا گروپ‘ کے خلاف پولیس اور خفیہ اداروں کی مشترکہ کارروائی کا مرکزی کردار تھے۔ وہ ان تین فوجی افسران میں شامل تھے جنہیں لسانی فسادات سے نمٹنے کے لئے کراچی پولیس کی ٹریننگ کے لئے تعینات کیا گیا تھا۔ دلچسب بات ہے کہ شروع میں کرنل سعید نے اس کام کے لئے آئی جی پولیس اور آئی بی چیف کی درخواست رد کر دی تھی، کیونکہ یہ ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا تھا۔ مگر پھر گورنر سندھ جنرل جہانداد کے کہنے پر وہ تیار ہو گئے۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ لیبیا پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے۔ لیبیا کو پاکستان میں دہشتگردی سے کیا فائدہ ہو سکتا تھا؟ کرنل سعید نے کچھ سال قبل بی بی سی کو انٹرویو میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’تب ہمارے تعلقات امریکہ سے بہت اچھے تھے اور یہ اُن کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ البتہ ہتھوڑا گروپ کی کاروائی لیبیا حکومت کی سرکاری پالیسی نہیں تھی۔ اس کی وضاحت اینٹی ٹیررسٹ ونگ کے سابق سربراہ دوست علی بلوچ نے کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لیبیا کے باشندے کو روس نے بھرتی کر کے ایک سلیپر سیل بنایا جس میں مقامی بھرتیاں کی گیں۔ خفیہ اداروں نے ہتھوڑا گروپ کے طریقہ واردات سے متعلق بھی اہم معلومات اکھٹی کیں۔۔ کرنل سعید کے مطابق اس ’منظم نیٹ ورک‘ میں زیادہ تر پاکستانی ملوث تھے۔ جن میں مقامی لوگوں کے علاوہ کچھ لیبیا میں مقیم پاکستانی بھی تھے۔ ایجنسیوں کو دستیاب معلومات کے مطابق لیبیا میں مقیم پاکستانیوں کو بذریعہ فلائیٹ بھیجاجاتا تھا۔ یہاں آئی بی ہی کے ایک افسر (انسپکٹر لطیف) ایئر پورٹ پر لیبیا سے آنے والے مجرمان کو سہولیات فراہم کرتے تھے۔ شام کو فلائیٹ لیبیا سے آتی تھی، رات کو وہ لوگوں کو قتل کر کے رات و رات ہی واپس چلے جاتے۔ یہ افراد کراچی یا پاکستان میں جہاں کے رہنے والے ہوتے تھے وہیں یعنی مقامی علاقے میں واردات کرتے تھے۔

یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے لئے ایک ایسا ہی میکنزم قائم تھا۔ کئی جے آئی ٹی رپورٹس میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ کراچی میں لسانی دہشتگردی کے لئے جنوبی افریقا سے ٹارگٹ کلرز کو منگوایا جاتا تھا۔ وہ واردات کر کے اُسی دن واپس چلے جاتے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ جو کام 80 کی دہائی میں کراچی میں ہوتا تھا 2010 میں بھی وہی طریقہ واردات اپنایا گیا۔

لیکن اس سے بھی اہم ہتھوڑا گروپ کا اینٹی کلائیمکس ہے۔ مرکزی ملزم کی گرفتاری کے بعد مقامی نیٹ ورک بھی جلد ہی پکڑا جاتا ہے۔ ملزم کا اعترافی بیان بھی سامنے آ جاتا ہے، مگر افسوس کا یہ مقام کہ لیبیا کے اس شہری کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جاتی! ڈپلومیٹک امیونٹی کی وجہ سے محض ناپسندیدہ شہری قرار دے کر ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔

اس عمل کے بعد ہتھوڑا گروپ جیسی منظم کاروائیاں تو بند ہو گئیں مگر یہ مسٹری اب تک برقرار ہے کہ سرکاری سطح پر آج تک اس تمام قصے کی کوئی باضابطہ وضاحت نہیں کی گئی۔ ہتھوڑا گروپ کی فائل سرکاری کاغذوں میں آج بھی بند ہے!

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *