پشاور(حسام الدین) خیبر پختونخوا میں کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی توسیع کرتے ہوئے صوبے میں 14 نئے تھانے قائم کیے گئے ہیں۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات خان نے آزاد ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سی ٹی ڈی اور سپیشل برانچ کی نگرانی کے ادارے اب ضم اضلاع میں فعال ہو چکے ہیں۔ ان کے دفاتر بن چکے ہیں اور معلومات اکٹھا کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ آئی جی نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس کو ان اقدامات کی وجہ سے کافی کامیابیاں ملی ہیں۔
آئی جی پولیس نے یاد دہانی کروائی کہ دو سال پہلے بھتہ خوری ایک بڑا مسئلہ تھا، اور اس کے خلاف سی ٹی ڈی نے شاندار کارروائیاں کیں۔ متعلقہ ڈی آئی جی نے علیحدہ ونگ بنایا، جس نے مہمند، باجوڑ، خیبر، پشاور، لکی مروت، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھتہ خوری میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا، جن میں کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔
آختر حیات خان نے یہ بھی کہا کہ سی ٹی ڈی کو فیڈرل ڈیٹا بیس اور دیگر ڈیٹا بیسز تک رسائی دی جا رہی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ موجودہ جنگ 5th جنریشن وار ہے، اور ہمارے مخالفین اپنے ڈیجیٹل سیگنیچرز مختلف جگہوں پر چھوڑ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے۔
آئی جی پی نے بتایا کہ جب انہوں نے عہدہ سنبھالا تو پولیس اہلکاروں پر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے پولیس کی سیکیورٹی کو اولین ترجیح دی۔ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا تاکہ علاقے کو محفوظ بنایا جا سکے، خاص طور پر شمالی اور جنوبی وزیرستان، ٹانک، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان میں۔
انہوں نے بتایا کہ پاک فوج کے تعاون سے پولیس کو رات کے وقت لڑنے کی صلاحیت فراہم کی گئی، جس میں تربیتی کیمپس، سیکیورٹی کیمروں، اور تھرمل امیجنگ کی مدد لی گئی۔ اس کے نتیجے میں حملہ آوروں کی جانب سے نصب اسلحہ آسانی سے دیکھا جا سکا، جس سے پولیس کو رات کے وقت حملوں کو ناکام بنانے میں مدد ملی۔
آئی جی پی کے مطابق، اگلے مرحلے میں انہوں نے صوبے بھر میں چوکیوں اور تھانوں کو مضبوط کیا۔ شدت پسندوں کے حملوں کے خلاف پولیس کو محفوظ رکھنے کے لیے انہوں نے سخت حفاظتی اقدامات کیے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال لکی مروت میں ایک جوابی کارروائی کے دوران ایک ڈی ایس پی اور تین پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے، جس کے بعد انہوں نے این آر ٹی سی کے تعاون سے اعلیٰ معیار کے جیمرز متعارف کرائے تاکہ آئی ای ڈی دھماکوں سے نمٹا جا سکے۔
آختر حیات خان نے اس بات پر زور دیا کہ اس جنگ میں ٹیکنالوجی کا استعمال انتہائی ضروری ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں اہم اقدامات کیے ہیں۔