حکومت نے مجوزہ 26 ویں آئینی ترامیم کا مسودہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کر دیا ہے۔ اس مسودے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے کی جائے گی، جو تین سینیئر ترین ججز میں سے ایک کا انتخاب کرے گی۔
اس آئینی مسودے کے مطابق، وفاقی اور صوبائی آئینی عدالتوں کے ججز کی تقرری کے لیے سات رکنی آئینی کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ جج کی برطرفی کے لیے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی، اور وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی۔ چیف جسٹس کی زیادہ سے زیادہ مدت تین سال مقرر کی گئی ہے۔
مسودے میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنانے کی شق ختم کی جائے۔ قومی اسمبلی کی آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے ایک نام تجویز کرے گی، جسے وزیراعظم صدر کو بھیجیں گے۔ پارلیمانی کمیٹی میں مختلف جماعتوں کی نمائندگی ان کے ارکان اسمبلی کے تناسب سے ہوگی۔
مزید برآں، آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت اور چار صوبائی آئینی عدالتیں تشکیل دی جائیں گی۔ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت کریں گے۔ اس عدالت کے ابتدائی ججز کا تقرر صدر، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے مشورے سے کریں گے۔
مستقبل میں آئینی عدالتوں کے چیف جسٹس اور ججز کا تقرر سات رکنی آئینی کمیشن کرے گا، جس میں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس، دو سینیئر ترین ججز، ایک ریٹائرڈ جج، وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا نمائندہ شامل ہوگا۔ دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے دو، دو ارکان بھی کمیشن میں شامل ہوں گے۔ صوبائی آئینی عدالتوں کے لیے متعلقہ صوبائی وزیر قانون اور بار کونسل کے نمائندے کمیشن میں شامل ہوں گے۔
وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ججز کی تقرری تین سال کے لیے ہوگی، جبکہ ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی گئی ہے۔ آئینی ترمیم کے تحت ہائیکورٹس کے ججز کی سالانہ کارکردگی رپورٹ مرتب کی جائے گی۔ خراب کارکردگی والے ججوں کو بہتری کے لیے وقت دیا جائے گا، اور اگر کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو ہائیکورٹ جج کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جائے گا۔
آئندہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو “چیف جسٹس آف سپریم کورٹ” کہا جائے گا، جبکہ آرٹیکل 63 اے میں منحرف رکن کے ووٹ شمار کرنے کی شق شامل کی جائے گی۔