خیبر پختونخوا حکومت کی غفلت اور مبینہ ملی بھگت کے باعث محکمہ اوقاف کی ضلع مردان میں وقف شدہ 36 ہزار کنال سے زائد زرعی اراضی پر اجارہ داروں نے غیر قانونی تعمیرات کرکے سترہ گاؤں بنا دئیے جبکہ بیشتر اراضی پر مارکیٹیں بھی بن گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت کی مبینہ غفلت کے سبب محکمہ اوقاف کی ڈسٹرکٹ مردان میں وقف شدہ 36 ہزار کنال سے زائد اراضی پر لینڈ مافیا کی جانب سے غیرقانونی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے اور اجارہ داروں نے محکمہ اوقاف کی اراضی پر مارکیٹس بھی بنا لی ہیں۔ اس وقف اراضی پر دہائیوں سے رہائش پذیر افراد نے ملکیت کی دعویداری بھی کی جس کو عدالت نے مسترد کر دیا۔ تاہم اب حکومت ہزاروں اجارہ داروں کے ساتھ معاہدہ کرنے جا رہی ہے جس کے تحت چار کنال اراضی کی سالانہ فیس محض 18 سو روپے مقرر کی گئی ہے لیکن ابتک حکومت کو اس اراضی سے ایک روپیہ امدن بھی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
موجود دستاویزات کے مطابق ضلع مردان کے علاقے موضع کالو شاہ میں وقف شدہ 36 ہزار 113 کنال اراضی کا انتظامی اختیار صوبائی حکومت نےچیرٹیبل انسٹیٹویشن ایکٹ 1949 کی ذیلی شق 3 کے تحت 3 اپریل 1950 کو حاصل کیا لیکن اراضی پہلے سے لیز پر لینے والے افراد کے زیر استعمال رہی جنہوں نے اسے آگے لیز پر دیا تاہم ریونیو ریکارڈ 1925 اور 26 کے مطابق مذکورہ اراضی معروف روحانی شخصیت حضرت میاں محمد عمر صاحب آف چمکنی (پشاور) کی تھی جنہیں اس زرعی اراضی کا بیسواں حصہ دیا جاتا تھا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے گدی نشین فضل الہادی اور ان کے بعد ان کی اولادوں کو یہ حصہ دیا جاتا رہا۔
29 مارچ 1987 کو اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے وزیر اعلیٰ نے ایک انتظامی حکمنامہ (ایگزیکٹو آرڈر) کے ذریعے اجارہ داروں کی طرف سے غیر قانونی طور پر دوسرے لوگوں کو دی جانے والی اراضی کو قانونی طور پر دیگر افراد کو لیز پر دینے کے احکامات جاری کردئیے جس پر اجارہ داروں نے پشاور ہائی کورٹ میں ملکیت کی دعویداری کر دی جسے عدالت نے 16 مئی 1989 کو خارج کر دیا۔
اجارہ دار اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گئے جس نے 29 مارچ 1992 کو باہمی مشاورت سے مسئلے کا حل نکالنے کا حکم دیدیا۔ اجارہ داروں نے محکمہ اوقاف سے معاملات کا حل نکالنے کی بجائے مردان سول کورٹ سے رجوع کیا اور موقف اختیار کیا کہ این ڈبلیو ایف پی کرایہ دار ترمیمی ایکٹ 1992 کے تحت وہ مالک ہیں۔ عدالت نے 10 مارچ 1998 کو ان کے حق میں فیصلہ دے دیا لیکن محکمہ اوقاف اس فیصلے کے خلاف اپیل میں چلا گیا اور 13 فروری 1999 کو محکمہ کے حق میں فیصلہ ہوا پھراجارہ دار 28 ستمبر 2005 کو پشاور ہائی کورٹ نظر ثانی اپیل (سول ریویژن) میں چلے گئے لیکن عدالت نے دو دن بعد ہی اس کے سول رویژن کو منسوخ کر دیا جس پر وہ سپریم کورٹ چلے گئے۔
16 جون 2014 کو سپریم کورٹ نے فیصلے میں صوبائی حکومت کو مذکورہ اراضی کا مالک قرار دیا۔اب عدالت نے اجارہ داروں کے ساتھ معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے چھ ماہ کی مہلت دی ہے جس کے لیے صوبائی حکومت نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جو ایک اندازے کے مطابق سات ہزار سے زائد لوگوں کے ساتھ معاہدے کرے گی۔ چارکنال زرعی اراضی کی ایک سال لیز کی قیمت صرف اٹھارہ سو روپے جبکہ غیر زرعی چار کنال اراضی کی لیز کی فیس پانچ سو روپے مقرر کی گئی جو لگ بھگ ایک کروڑ 62 لاکھ روپے سالانہ بنتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اراضی پر تقریبا چھوٹے چھوٹے سترہ دیہات بن چکے ہیں اور بیشر جگہوں پر مارکیٹیں بھی قائم ہیں تاہم محکمہ کی غفلت کے باعث اس کو جس مقصد کے لیے دیا گیا تھا اس پر عمل درآمد نہیں ہوا بلکہ انہوں نے گھر تعمیر کیے اور وہاں پر مارکیٹیں بھی بنا لی ہیں جس کی وجہ سے خزانے کو بہت نقصان ہوا۔ رابطہ کرنے پر وزیر اوقاف و مذہبی امور عدنان قادری نے انکشاف کیا کہ مذکورہ اراضی سے ابتک حکومت کو مالی فائدہ نہیں ملا ہے اور پہلی مرتبہ حکومت کو مالی فائدہ ہوگا تاہم عدالت کے حکم کے مطابق شفاف طریقہ کار کے تحت مقررکردہ فیس پرمعاہدے ہوں گے ۔
محکمہ اوقاف کے ایک افیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت کو دی جانے والی تفصیلات کے مطابق اراضی 36 ہزار113 کنال ہے لیکن اب اس کی گراونڈ پر تصدیق کی جارہی ہے کہ واقعی میں یہ اراضی اتنی ہی ہے جتنا حکومت کو ابتک بریفننگ میں بتایا گیا ہے یا اس سے کم ہے بلکہ ریونیو ریکارڈ سے بھی اس کی تصدیق کی جارہی ہے۔