خیبرپختونخوا کے محکمہ نے خلاف قواعد ایبٹ آباد میں محکمہ جنگلات کی اراضی پر قیمتی فاسفیٹ 30 سال لیز پر سیکر من پسند شخص کو نواز دیا۔ جس کی وجہ سے درختوں کے گرنے کیساتھ ساتھ جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ محکمہ مائنز اینڈ منرل نے محکمہ جنگلات کی بار بار مخالفت کے باوجود لیز کو منسوخ نہ کرتے ہوئے ٹیکنکل طریقے سے لیز کو تیس سال میں تبدیل بھی کروایا جس پر قومی احتساب بیورو(نیب) نے بھی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
آزاد اردو کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق ایبٹ آباد شہر سے 18 کلومیٹر جنوب کی طرف واقع پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کی پشت پر ’گزارہ فارسٹ‘ ہے جس کی لِیز کے لیے پہلی بار زرگل نامی شخص نے 2005 میں متعلقہ محکمہ کو درخواست دی۔ انہیں جون 2008 میں محکمہ مائنز نے پانچ سال کے لیے 86 ایکڑ اراضی پر فاسفیٹ کی لِیز دی بعد میں اس میں مزید ایک ایک سال کی توسیع دی جس پر کاکول کے ایک رہائشی جنید خان جس کا گھر اس لیز شدہ اراضی کے قریب ہے مائننگ کی وجہ سے مقامی آبادی کو نقصانات کے اندیشے کی وجہ سے مقامی عدالت کا رخ کیا جس کی وجہ سے 2015 سے 2020 تک اس لیز پر مائننگ بند رہی لیکن لِیز ہولڈر نے اس کا ایک اور حل نکالا اور محکمہ جنگلات کی مخالفت کے باوجود 11 دسمبر 2020 کو لیز ہولڈر کی پراسپیکٹنگ لیز ( جس کی مدت پانچ سال ہوتی ہے ) کو مائننگ لیز ( جس کی مدت 30 سال ہوتی ہے ) میں تبدیل کروانے میں کامیاب ہوگیا جس کی مدت 2015 سے شروع ہوکر 2045 تک ہے۔
محکمہ جنگلات کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر شہریار کے مطابق ماننگ لیز جب منرل ٹائٹل کمیٹی (ایم ٹی سی) میں بھیجوائی گئی تو انہوں نے مسترد کر دیا جس کے خلاف سیکرٹری معدنیات کی سربراہی میں منرل ٹریبونل کو اپیل کی گئی تو انہوں نے ایم ٹی سی کو مائننگ لیز الاٹ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد اس لیز کو لیگل کور دینے کے لیے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا کہ ایم ٹی سی محکمہ کے منرل ٹریبونل کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کر رہا ہے جس پر عدالت نے ایم ٹی سی کو عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 60 روز کی مدت بھی دی لیکن عدالت کو پوری کہانی نہیں سنائی گئی کہ جس جگہ پر لیز دی گئی ہے وہ ’گزارہ فارسٹ‘ ہے۔ ایم ٹی سی نے مائننگ لیز میں تبدیل کرتے وقت 86 ایکڑ کے بجائے 80 ایکڑ پر لیز الاٹ کی جس میں 6 ایکڑ ’ریزرو فارسٹ‘ تھا جبکہ باقی ماندہ ’گزارہ فارسٹ‘ ہے ۔
ذرائع کے مطابق اس سے قبل اور اس کےبعد اس اراضی کی فاسفیٹ لیز کے لیے جتنی بھی درخواستیں آئیں ان کو اس بنا پر مسترد کر دیا گیا کہ یہ فارسٹ کی زمین ہے۔ اس قسم کی ایک درخواست کو 31 جنوری 2024 کو اس لیے مسترد کیا گیا کیونکہ مذکورہ جگہ ’گزارہ فارسٹ‘ ہے۔ اس اراضی کو غیر قانونی لیز سے واگزار کروانے کے لیے ماضی میں محکمہ جنگلات، کمشنر ایبٹ آباد اور محکمہ مائنز اینڈ منرل کے درمیان خط و کتابت بھی ہوتی رہی لیکن اس کا کچھ خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
محکمہ جنگلات نے 14 نومبر 2020 کو لیز کو منسوخ کرنے اور مائننگ کو روکنے کے لیے مائنز اینڈ منرلز ڈیپارٹمنٹ کو ایک خط ارسال کیا۔ اس خط کے جواب میں چھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد محکمہ مائنز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے 28 مئی 2021 کو موقف اخیتار کیا کہ لیز کو منسوخ کرنا اور روکنا توہین عدالت ہو گا اور محکمہ فارسٹ کو مداخلت نہ کرنے کی بھی درخواست کی گئی۔ محکمہ معدنیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد ریاض سے جب اس بابت رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس سے متعلق کیس عدالت میں بھی ہے اور نیب بھی انکوائری کر رہی ہے اس لیے وہ اس پر بات نہیں کرسکتے۔
محکمہ جنگلات کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر(ڈی ایف او) نے 21 اگست 2023 کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر مائننگ کو ایک خط ارسال کیا کہ 1.2 ایکڑ گزارہ فارسٹ کو نقصان پہنچ چکا ہے اور 36 درخت بھی گر گئے ہیں جبکہ لینڈ سلائیڈنگ اس کے علاوہ ہے اور ارد گرد کے جنگلات کو مزید خطرات بھی لاحق ہیں۔ خط میں مزید لکھا گیا کہ غیر قانونی مائننگ کو روکنے کے لیے کئی مرتبہ متعلقہ محکمہ مائنز اینڈ منرلز ڈیپارٹمنٹ کو سرکاری مراسلے جاری کیے گئے لیکن قصداً اس پر خاموشی اختیار کی گئی۔ محمکہ جنگلات کا یہ بھی کہنا تھا کہ اراضی حد بندی رپورٹ کے مطابق یہ اراضی ’گزارہ فارسٹ‘ ہے۔
بالآخر تھک ہار کر محکمہ جنگلات کے ایک سب ڈویژنل فارسٹ آفیسر (ایس ڈی ایف او) نے 8 ستمبر 2023 کو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو لیز ہولڈر کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج اور وہاں پر پولیس کو تعینات کر کے غیر قانونی مائننگ کو روکنے کے لیے ایک خط ارسال کیا۔ اس سے قبل بھی 22 اگست 2022 کو محکمہ جنگلات کے سیکرٹری نے دفعہ 144 نافذ کرنے اور فوری طور پر لیز ہولڈر سے جگہ خالی کروانے کے لیے کمشنر ہزارہ کو ایک خط ارسال کیا جس پر کمشنر نے ڈپٹی کمشنز ایبٹ آباد کو دفعہ 144 کے نفاذ کے لیے سرکاری مراسلہ جاری کر دیا لیکن یہ کاوشیں بھی بے سود نکلیں۔ کمشنر ہزارہ نے 8 اپریل 2024 کو سیکرٹری مائنز اینڈ منرل کو فوری طور پر اس لیز کو جس کا سرکاری ٹائٹل ’فاسفیٹ لیز نمبر 39‘ ہے کو منسوخ کرنے کے لیے خط ارسال کیا جس میں ان کا استدلال تھا کہ خیبر پختونخوا مائنز اور منرل ایکٹ 2017 کی شِق 34، 35 اور 96 کے تحت پبلک پراپرٹی پر مائننگ نہیں کی جا سکتی لیکن اس پر بھی کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
اس بابت ڈائریکٹر جنرل محکمہ معدنیات یعقوب نواز نے آزاد اردو کو بتایا کہ اس کیس میں چیف سیکرٹری نے بھی محکمہ سے معلومات طلب کر لی ہیں جبکہ نیب میں بھی اس کی انکوائری چل رہی ہے۔