پاکستانی حکام نے انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کم از کم 15 ممالک کا سفر کرنے والے نوجوانوں کی نگرانی کا ارادہ کیا ہے۔
امیگریشن حکام 15 سے 40 سال کی عمر کے تمام مسافروں سے ان ممالک کے لیے پروازوں میں سوار ہونے سے قبل پوچھ گچھ کریں گے، جنہیں انسانی اسمگلرز مبینہ طور پر ٹرانزٹ راستوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق، ایف آئی اے نے ہوائی اڈوں پر گراؤنڈ افسران کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایسے مسافروں کے بارے میں تفصیلات حاصل کریں جو ان ممالک کی جانب سفر کر رہے ہوں، جنہیں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے ہاٹ اسپاٹ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ اقدام حالیہ بحیرہ روم اور بحرالکاہل میں لیبیا اور مراکش سے یورپ جانے والی کشتیوں کے حادثات میں متعدد پاکستانی نوجوانوں کے ڈوبنے کے بعد کیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یورپ تک پہنچنے کے لیے ہر سال لاکھوں پاکستانی نوجوان انسانی اسمگلروں کو بھاری رقم ادا کرتے ہیں اور خطرناک زمینی اور سمندری راستوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ اس سفر کے دوران انہیں سرحدی محافظوں کے حملوں یا ڈوبنے جیسے مہلک خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈی پی اے کی رپورٹ کے مطابق آذربائیجان، ایتھوپیا، کینیا، مصر، سینیگال، سعودی عرب، ایران، روس، لیبیا، موریطانیہ، عراق، ترکی، اور کرغزستان وہ ممالک ہیں جو عام طور پر غیر قانونی امیگریشن کے لیے ٹرانزٹ روٹس کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔