11 سالہ انتظار مایوسی میں ختم: خیبر حکومت کی نااہلی سے متاثرہ افراد مالی معاونت کی منتظر

11 سالہ انتظار مایوسی میں ختم: خیبر حکومت کی نااہلی سے متاثرہ افراد مالی معاونت کی منتظر

پشاور: دہشت گردی سے متاثرہ اقلیتی برادری کو مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کی مشترکہ مالی معاونت سے قائم کردہ انڈومنٹ فنڈ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی نا اہلی کے باعث نا قابل عمل ہو کر رہ گیا۔11 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی انڈومنٹ فنڈ سے ایک بھی دہشتگردی سے متاثرہ فرد یا ان کے خاندان کے افراد مستفید نہیں ہوئے۔

2013 میں ال سینٹس چرچ پشاور دھماکے میں زخمی اور جانبحق ہونے والوں کے خاندان کے افراد کیلئے انڈومنٹ فنڈ قائم کیا گیا جس میں دس کروڑ روپے وفاقی اور دس کروڑ روپے صوبائی حکومت نے رکھے لیکن اس فنڈز کو کس طریقہ کار کے تحت تقسیم کیا جائے اس کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی تھی تاہم سات سال کے بعد صوبائی حکومت کو انڈومنٹ فنڈ کی تقسیم کا خیال ایا تو 2020 میں قانون سازی کر کے خیبر پختونخونخوا ری ہیبلی ٹیشن آف مائنارٹیز (ویکٹم آف ٹیرر ازم) انڈومنٹ فنڈ ایکٹ 2020 پاس کر لیا جس کے رُولز (قواعد و ضوابط) 2021 میں بنائے گئے۔ دراصل میں یہ فنڈ چرچ کے متاثرین کیلئے بنایا گیا تھا جس میں زخمی ہونے والے افراد کا علاج معالجہ سمیت جانبحق ہونے والے افراد کے خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کرنی تھی لیکن ڈیڑھ سو کے قریب درخواست گزار گذشتہ 11 سالوں سے حکومت کی راہ تک رہے ہیں۔

صوبائی حکومت نے قانون سازی کرتے وقت ایکٹ میں بارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کے چیئرمین صوبائی وزیر، مشیر یا معاون خصوصی برائے اقلیتی امور کو مقرر کیا جا سکتا ہے۔ جس کے ممبران میں چار اقلیتی ارکان صوبائی اسمبلی، ایڈمنسٹریٹر اوقاف، محکمہ فنانس کا ڈپٹی سیکرٹری، ریلیف کا ڈپٹی سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری سوشل ویلفئیر ، ڈپٹی سیکرٹری ہیلتھ ، متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر، سیکرٹری اوقاف اور ڈپٹی سیکرٹری اوقاف شامل ہیں جبکہ چیئرمین کسی بھی ایک کو ممبر لے سکتا ہے۔ ایکٹ کے مطابق دہشت گردی کے متاثرین کمیٹی کو درخواست دیں گے جس کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی منظوری دی جائے گی۔ بعد ازاں متاثرین کو مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی گذشتہ حکومت میں کمیٹی کے چیئرمین کے لیے صوبائی وزیر، مشیر یا معاون خصوصی برائے اقلیتی امور کی شرط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سپیشل اسسٹنٹ برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کو اس کمیٹی کا چیئرمین مقرر کر دیا۔ اقلیتی ارکان کا انتخاب بلاواسطہ انتخاب سے نہیں بلکہ مخصوص نشستوں پر صوبائی اسمبلی کے ارکان کرتے ہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت کا اس مسئلہ پر الیکشن کمیشن آف پاکستان سے قانونی تنازعہ چل رہا جس کی وجہ سے تاحال ان مخصوص نشستوں پر اقلیتی ارکان کا انتخاب نہیں ہو پایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کمیٹی کی تشکیل ممکن نہیں ہے کیونکہ اس میں چار اقلیتی ممبرانِ صوبائی اسمبلی کا ہونا ضروری ہے۔

اس قانونی پیچیدگی کے پیشِ نظر محکمہ اوقاف نے ایکٹ میں ترمیم کرنے پر سوچ و بچار شروع کر دیا ہے تاکہ اس فنڈ سے اقلیتوں کی مالی معاونت کی جا سکے۔ اسی ہی قانون سازی کے ذریعے دہشت گردی میں زخمی ہونے والے افراد کو علاج اور مالی معاونت فراہم کی جائے گی جبکہ دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں اور ان کی بیواؤں کو بھی مالی معاونت فراہم کی جائے گی اس فنڈ کو خاندان کی بجائے افراد کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا۔

اس بابت پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن صوبائی اسمبلی اور معاونِ خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ نے رابطہ کرنے پر آزاد ڈیجیٹل کو بتایا کہ بیس کروڑ کا فنڈز استعمال نہ ہونے کی وجہ سے 30 کروڑ تک پہنچ چکا ہے کیونکہ اس پر سالانہ منافع ڈھائی کروڑ تک ائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس فنڈ کو متاثرین میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا۔
وزیر زادہ کے مطابق ’’اس کے لیے طریقہ کار کا تعین کیا جا رہا ہے کہ سال میں ایک مرتبہ اس کو تقسیم کیا جائے گا یا سال میں چار مرتبہ۔ اس سے متعلق میری وزیر اعلیٰ سے میٹنگ ہوئی ہے اور وہ جلد ہی کمیٹی کی میٹنگ طلب کر کے اس کی منظوری دیں گے۔‘‘

اقلیتی امور کا وزیر، مشیر یا معاون خصوصی اور اقلیتی ارکانِ اسمبلی کی عدم موجودگی میں کس طرح کمیٹی کی میٹنگ طلب کی جا سکتی ہے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’اس کا حل نکال لیا جائے گا۔‘‘

پی ٹی ائی کے سابق اقلیت کی مخصوص نشست پر رکن صوبائی اسمبلی روی کمار نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ قانون نہ ہونے کی وجہ سے ہی فنڈز کی تقسیم ممکن نہیں ہوئی ہے جبکہ حکومت کی غفلت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ مزید اقلیتی برداری کے لوگ بھی دہشتگردی کا شکار ہوچکے ہیں اور اقلیتی برادری کا بھی دباو بڑھ رہا ہے کہ انہیں ابتک کوئی مالی معاونت فراہم نہیں کی گئی ہے ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *