آئی ایم ایف کا موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات پر زور

آئی ایم ایف کا موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات پر زور

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائیں اور اس سے متعلق منصوبوں کو ترجیح دے تاکہ شدید موسمی صورت حال بشمول سیلاب اور خشک سالی سے پیدا ہونے والی قدرتی آفات سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔

یہ بھی پڑھیں:قرضوں کا بوجھ پاکستان کیلئے چیلنج، وجہ ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت میں کمی ہے ، آئی ایم ایف

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ٹیم نے شہری اور دیہی علاقوں میں توانائی کی بچت کرنے والی عمارتوں کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ دریاؤں، نالوں، دیگر آبی گزرگاہوں اور جنگلات کے قریب تعمیرات کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کی بھی سفارش کی ہے۔

ادھر عالمی مالیاتی فنڈ کے 4 رکنی تکنیکی مشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھی ہوئی تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی اضافی فنانسنگ کی ملک کی درخواست پر غور کیا جا سکے۔

ادھر میڈیا رپورٹس کے مطابق سرکاری ذرائع تصدیق کر رہے ہیں کہ چیف نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف کی 9 رکنی اسٹاف ٹیم 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کی کارکردگی کا 2 ہفتوں پر محیط جائزہ لینے کے لیے 3 مارچ کو اسلام آباد پہنچے گی۔ یہ مشن عارضی طور پر 10 مارچ تک اپنا پہلا ص سالہ جائزہ مکمل کرنے والا ہے۔

 کے مطابق ریسیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسیلٹی (آر ایس ایف) کے تحت کلائمیٹ فنانسنگ سے متعلق تکنیکی مشن نے نہ میڈیا رپورٹ کے مطابق صرف وفاقی اور صوبائی سطح پر بلکہ سرکاری اداروں کے اندر بھی عوامی سرمایہ کاری کی حکمت عملی کا لازمی حصہ بننے کے لیے موسمیاتی مطابقت کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف ٹیم نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیزآسٹر رسک مینجمنٹ کو بچاؤ اور بحالی کے بجائے تیاری پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

آئی ایم ایف مشن کے دورے کے دوران اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کس طرح ‘گرین بجٹنگ’ کر رہی ہیں اور کس طرح معلومات اور مالی اعانت کا تبادلہ کر رہی ہیں۔ مشن کو ڈیزآسٹر رسک مینجمنٹ حکمت عملی، پانی اور فضائی آلودگی کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ کس طرح گرین بجٹ کو ٹیگ اور ٹریک کیا جا رہا ہے اور اس کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں:گرین پاکستان ٹوارزم پراجیکٹ کیخلاف منفی پراپیگنڈا، سابق وزیراعلی جی بی حفیظ الرحمن بھی بول پڑے

حکومت نے مشن کو بتایا کہ نئے بلڈنگ کوڈ پہلے ہی تیار کیے جا چکے ہیں اور حال ہی میں ان پر عمل درآمد کے لیے صوبائی حکام کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔ ادھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی گزرگاہوں نے دریاؤں اور آبی گزرگاہوں  کے اردگرد تجاوزات کے بارے میں کوئی ریکارڈ موجود نہ ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق سینیٹر شہادت اعوان کی زیر صدارت اجلاس کے دوران وزارت آبی وسائل نے انکشاف کیا کہ سپارکو کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگست 2024 سے پنجاب میں تجاوزات نہیں ہٹائی گئیں۔ رپورٹ میں سرگودھا آبپاشی زون میں 153 اور ملتان ایریگیشن زون میں 676 تجاوزات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

فیڈرل فلڈ کمیشن (ایف ایف سی) کے نمائندے نے دعویٰ کیا کہ اگست 2024 سے پہلے تمام تجاوزات کو ہٹا دیا گیا تھا، لیکن وہ اس دعوے کی تصدیق کے لیے اعداد و شمار فراہم کرنے میں ناکام رہے۔کمیٹی نے ایف ایف سی اور وزارت آبی وسائل کو ہدایت کی کہ وہ ایک ماہ کے اندر ان تجاوزات کو ہٹانے کے لیے متعلقہ صوبوں کے ساتھ تعاون کریں اور اگلے اجلاس میں تازہ ترین رپورٹ پیش کریں۔

آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ توانائی، ٹرانسپورٹ، مواصلات اور صحت جیسے اہم شعبوں میں بنیادی ڈھانچے کے اثاثوں کی نشاندہی کرے جو سیلاب، سمندری طوفان اور ہیٹ ویو جیسی آب و ہوا سے متعلق قدرتی آفات کے خطرے سے دوچار ہیں۔  آئی ایم ایف نے موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کے لیے شعبے کی مخصوص شراکت کی وضاحت کرنے کی بھی سفارش کی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ موافقت کے واضح اہداف اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پنجاب حکومت کا آئی ایم ایف کی شرائط پر زمینداروں پر سپر ٹیکس لگانے کے فیصلہ

آر ایس ایف کے تحت اضافی فنانسنگ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو مستقبل کے بلڈنگ کوڈز اور اربن پلاننگ گائیڈ لائنز میں موسمیاتی تبدیلیوں اور تخفیف کے اقدامات کو شامل کرکے سیکٹرل پلاننگ اور پروجیکٹ کی تیاری کے عمل کے اقدامات کو حتمی شکل دینے کی ضرورت ہوگی۔ گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان نے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف میں مزید 1.2 ارب ڈالر کا اضافہ کرے۔

آئی ایم ایف پہلے ہی پاکستان کو مشورہ دے چکا ہے کہ وہ ہر سال جی ڈی پی کا ایک فیصد یعنی موجودہ تخمینوں کی بنیاد پر 1.24 ٹریلین روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اصلاحات میں کرے تاکہ شدید موسمی حالات، خاص طور پر سیلاب کے بار بار اور بڑھتے ہوئے خدشات کا مقابلہ کرنے اور معاشی ترقی کو برقرار رکھنے اور عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے تیار رہیں۔

آئی ایم ایف کا خیال تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پروگرام کے بنیادی ڈھانچے میں اس طرح کی سرمایہ کاری قدرتی آفات کے منفی اثرات کو ایک تہائی تک کم کر سکتی ہے جبکہ تیزی سے مکمل بحالی کو یقینی بنا سکتی ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *