اسلام آباد. سینئر صحافی شاہد میتلا نے آزاد پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی حکومت کا ابتدائی موقف تھا کہ جنگ بندی امریکہ کے کہنے پر کی گئی، لیکن جب اس موقف پر عوامی ردعمل سامنے آیا تو بھارتی حکومت نے اپنا موقف تبدیل کرلیا اور نیا موقف اپنایا کہ جنگ بندی دراصل پاکستان اور بھارت کی عسکری قیادت کے درمیان براہ راست رابطے کے نتیجے میں ہوئی۔
شاہد میتلا کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی کہا ہے کہ جنگ بندی بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست رابطے کا نتیجہ ہے۔ جبکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارت نے خود ان سے جنگ بندی کی درخواست کی تھی، جس پر پاکستان نے اپنی شرائط رکھی تھیں اور انہی شرائط پر بھارت کی آمادگی کے بعد جنگ بندی ممکن ہوئی۔
شاہد میتلا کے مطابق پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کے لیے ایک اہم شرط یہ رکھی گئی تھی کہ مستقبل میں جب بھی مذاکرات ہوں گے، ان میں مسئلہ کشمیر ضرور شامل ہوگا۔ جنگ بندی اسی بنیاد پر ہوئی تھی کہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کا حصہ بنایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد سے وہاں امن و امان کی صورتحال مسلسل خراب ہو رہی ہے۔ ریٹائرڈ اور سول افسران نے بھارتی سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کی جائے، کیونکہ بھارت وہاں امن و امان قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
شاہد میتلا کے مطابق کشمیر اور بھارت دونوں میں باشعور طبقہ اس بات پر متفق ہے کہ کشمیر کی جداگانہ حیثیت کو بحال رکھا جانا چاہیے۔