مودی سرکار کی اسلام دشمنی پھر بے نقاب ہوگئی ،بھارتی ریاست اُتراکھنڈ کے ضلع اُدھم سنگھ نگر میں پانچ مزارات کو بلڈوز کر کے نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو کچلا گیا بلکہ ایک صدیوں پرانی روحانی وراثت کو بھی بےرحمی سے مٹا دیا گیا ۔
یہ کاروائی اُس وقت کی گئی جب مسلمان عبادت میں مشغول ہوتے ہیں ایک سوچا سمجھا وقت، ایک سوچا سمجھا پیغام! کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ سب کچھ سب ڈویژنل مجسٹریٹ ابھئے پرتاب سنگھ کی نگرانی میں ہوا، جہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات کر کے مقامی مسلمانوں کو اپنی عبادت گاہیں بچانے کا موقع بھی نہ دیا گیا۔
کیا یہ جمہوریت ہے؟ کیا یہ سیکولر بھارت ہے؟ یا ایک ایسی آمریت جہاں مسلمانوں کے عقیدے کو روندنے کا حق حکومت کو حاصل ہے؟یہ واقعہ محض ایک علاقائی واقعہ نہیں یہ ہندوتوا نظریے کے تحت مسلمانوں کی شناخت مٹانے کی قومی مہم کا حصہ ہے، جس کی قیادت نریندر مودی اور اس کی فرقہ پرست بی جے پی حکومت کر رہی ہے۔
مگر سوال یہ ہے صرف مسلمان ہی کیوں؟ کیا یہی قانون صرف اقلیتوں کے لیے ہے؟ ” علاقے کی مسلم برادری کا کہنا ہے کہ یہ مزارات شناخت تھے، انہیں گرا کر ہمیں مسلمان ہونے کی سزا دی گئی۔مودی حکومت جان بوجھ کر ایسے اقدامات کر رہی ہے جو مسلمانوں کو نہ صرف مذہبی طور پر مجروح کرتے ہیں بلکہ ان کی تاریخی، تہذیبی اور روحانی جڑیں بھی کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔