ویب ڈیسک۔ بھارتی خبر رساں ادارے نے ٹویٹ کیا ہے کہ بھارت ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے پنڈتوں کو تربیت دے گا اور ان کی شرکت کو “گیتا مہوتسو” جیسے تقاریب میں دکھایا جائے گا۔
اس سلسلے میں آزاد ریسرچ کی جانب سے تحقیق سامنے آئی ہے، جس میں بھارت کی نام نہاد ثقافتی تبادلے کی پالیسی کو “عالمی ہندوتوا توسیع” کا روپ قرار دیا گیا ہے۔
تحقیق کے مطابق آر ایس ایس-بی جے پی حکومت کے تحت بھارت نے ثقافتی سفارت کاری کو ایک ایسا ہتھیار بنا دیا ہے، جس کے ذریعے اکثریتی ہندوتوا نظریے کو براعظموں تک پھیلایا جا رہا ہے۔ ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو کے پنڈتوں کو تربیت دینا اور انہیں بین الاقوامی گیتا مہوتسو جیسے مذہبی تقاریب میں شامل کرنا اس نظریاتی منصوبے کی تازہ مثال ہے۔
ریسرچ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ صرف صحیفوں کا جشن منانے یا بے ضرر ثقافتی روابط قائم کرنے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوتوا کے عالمی وژن کو مستحکم کرنے کی ایک وسیع تر حکمت عملی ہے، جس کے ذریعے بیرون ملک بسنے والی بھارتی کمیونٹیز کو ہندو قوم پرست بیانیے کے “رضاکار” کے طور پر ڈھالا جا رہا ہے۔
گیتا مہوتسو جیسے مذہبی علامتوں سے بھرپور تقاریب کے ذریعے بی جے پی اور آر ایس ایس بھارت کی کثرت پسند بنیادوں کو پسِ پشت ڈال کر ایک مخصوص شناخت کو نمایاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آزاد ریسرچ کے مطابق یہ تربیتی پروگرام محض روحانی بیداری کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی راستہ ہیں، جن کے ذریعے ایسے پنڈت اور کمیونٹی لیڈرز تیار کیے جا رہے ہیں جو بی جے پی کے نظریات کو مذہب کے لبادے میں دنیا بھر میں پھیلائیں گے۔ اسی حکمت عملی کو بھارت کے اندر بھی استعمال کیا جا چکا ہے، جہاں مذہب اور ریاست کے درمیان فرق کو دھندلا کر دیا گیا ہے، اور اب یہی ماڈل ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو جیسے کثیرالثقافتی ممالک کو “ثقافتی ورثے” کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے۔
آزاد ریسرچ کا کہنا ہے کہ ثقافت کے اس سفارتی ہتھیار کو بے ضرر نہ سمجھا جائے، بلکہ یہ ہندوتوا کو عالمی سطح پر معمول بنانے، بیرونی اداروں میں اثر و رسوخ پیدا کرنے، اور بھارت کے اندر بی جے پی کی ساکھ کو مضبوط کرنے کی ایک منظم کوشش ہے، تاکہ وہ خود کو ہندو شناخت کے محافظ کے طور پر پیش کر سکیں۔
دنیا کو چاہیے کہ ان اقدامات کا باریک بینی سے جائزہ لے اور انہیں اس نظر سے دیکھے جو درحقیقت ہیں — یعنی آفاقی روحانیت کا جشن نہیں، بلکہ فرقہ وارانہ سیاست کی بین الاقوامی توسیع ہے۔