مودی حکومت میں قومی ناکامیوں پر سوال اٹھانا غداری، سیاسی مخالفین نشانہ بننے لگے

مودی حکومت میں قومی ناکامیوں پر سوال اٹھانا غداری، سیاسی مخالفین نشانہ بننے لگے

 کانگریس رہنما راہول گاندھی کو 2022 دسمبر میں بھارت جوڑو یاترا کے دوران کیے گئے اپنے بیانات پر لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔

ان بیانات میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ “چین نے 2,000 مربع کلومیٹر بھارتی زمین پر قبضہ کر لیا ہے اور 20 فوجیوں کو قتل کیا اور اروناچل پردیش میں ہمارے فوجیوں کو بری طرح مارا”۔

یہ طلبی مودی حکومت کے دور میں اختلاف رائے کو ہتھیار بنانے کی ایک اور مثال ہے ، موجودہ حکومت کے تحت کوئی بھی آواز جو آر ایس ایس-بی جے پی کے قیام کے تیار کردہ بیانیے کو چیلنج کرتی ہے اسے فوراً نشانہ بنایا جاتا ہے، خاموش کر دیا جاتا ہے، اور قانونی طور پر پریشان کیا جاتا ہے۔

 یہ ایک وسیع تر رجحان کی علامت ہے جس میں سچائی کو دبا دیا جا رہا ہے اور اپوزیشن کو مجرم قرار دیا جا رہا ہے۔

حقیقت: تسلیم کریں یا دبا دیں؟

آزاد ریسرچ ڈیسک کے مطابق حکومتی دعووں کے برعکس  راہول گاندھی کا کہنا جھوٹ نہیں ہے  بلکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے جس کے پیچھے دستاویزی شواہد موجود ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فوج کو 2020 میں گلوان اور 2022 میں اروناچل پردیش میں شرمناک شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، یہ واقعات دستاویزی طور پر ثابت ہیں اور انہیں وسیع پیمانے پر رپورٹ کیا گیا ہے، جس میں بھارتی عوام نے چین کے ہاتھوں اہم علاقے کھوئے۔

سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے شکستوں کا مناسب طریقے سے مقابلہ نہیں کیا اور 2020 میں، جب بھارتی فوج گلوان وادی میں پی ایل اے کے ہاتھوں بری طرح پٹ گئی اس وقت  مودی نے خاموشی اختیار کی اور شکست کی مذمت کرنے کے بجائے حکومت نے صورتحال کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی، عوام کو گمراہ کرتے ہوئے خاموشی سے نئے اسٹیٹس کو کو تسلیم کیا۔

یہ خبربھی پڑھیں :بھارت کا یاترا کی آڑ میں فوجی تسلط اور پاکستان مخالف بیانیہ بے نقاب

اب، مودی حکومت  مزید سفارتی کمزوری کا مظاہرہ کررہی ہے خصوصا وزیر خارجہ ایس جے شنکراس وقت چین میں موجود ہیں اور بیجنگ سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ 2020 سے پہلے کی پوزیشنز پر واپس آئیں،  یہ اقدام ایک سفارتی شکست کے مترادف ہے، جسے “مضبوط قیادت” کی خالی تقریروں میں لپیٹا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارتی دعوے کے علاقوں میں سکڑاؤ آ رہا ہے لیکن مودی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو سزا دینے پر زیادہ توجہ مرکوز ہے جو ناپسندیدہ سچائیاں بیان کرتے ہیں۔

 حکومتی ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بجائے اختلاف رائے کو دبانا

اس صورتحال جس میں بھارت کی علاقائی سالمیت کم ہو رہی ہے، مودی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو سزا دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے جو حکومت کی ناکامیوں پر سوال اٹھاتے ہیں،  عدلیہ اور ریاستی مشینری کو اس وقت اختلاف رائے کو دبانے اور حکومت کو احتساب سے بچانے کے لیے ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔

یہ ایک سنگین انحراف ہے جہاں حکومتوں کو ان کی کارروائیوں کے لیے جوابدہ بنایا جانا چاہیے لیکن اس نئے بھارت میں، جہاں قومی ناکامیوں کا سوال کرنا غداری سمجھا جاتا ہے اور اصل قومی ذلت کو نظرانداز کیا جاتا ہے، مخالفین کو قانونی مقدمات میں گھسیٹنا اور عوامی سطح پر بدنام کرنا معمول بن چکا ہے۔

مشکلات میں اضافہ

آزاد ریسرچ ڈیسک  کے مطابق یہ واقعہ بھارت میں مودی کے دور کی وسیع تر مشکلات کو اجاگر کرتا ہے جو ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں قومی ناکامیوں کو تسلیم کرنا غداری سمجھا جاتا ہے، اور اختلاف رائے کو قومی شناخت کے لیے خطرہ قرار دیا جاتا ہے، حکومت زمین پر موجود اسٹریٹجک حقیقتوں سے نمٹنے کے بجائے ایک ایسا بیانیہ تیار کرنے میں مصروف ہے جو سچائی کو چھپائے، اور ان لوگوں کو سزا دے جو اس کو نمایاں کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیا بھارت! سکول کے بچے پوجا میں بی جے پی اور آر ایس ایس رہنماؤں کے پاؤں دھونے پر مجبور

مودی حکومت نے واضح طور پر یہ بات کہہ دی ہے کہ جتنا زیادہ آپ حکومت کے چین سے متعلق سوال اٹھائیں گے، اتنا ہی آپ کو قانونی ہراساں کیا جائے گا،  اس دوران، اصل اسٹریٹجک ناکامیاں بغیر کسی جوابدہی کے جاری رہیں، اور چین ایل اے سی پر اپنی شرائط مسلط کرتا رہے گا جبکہ مودی کی خاموشی ملک کی قیادت پر ایک دائمی داغ کی طرح چھا جائے گی۔

مودی کی قیادت پر مستقل داغ

آزاد ریسرچ ڈیسک کا ماننا ہے کہ کسی بھی قسم کی انتہاپسند قومی نظریات کی تشہیر یا قانونی دھمکیاں سچائی کو مٹا نہیں سکتی،  گلوان 2020 ایک اسٹریٹجک ناکامی تھی، پی ایل اے،  ایل اے سی کے ساتھ اپنی شرائط مسلط کرتا رہتا ہے، اور مودی خاموشی کی تصویر بنے ہیں۔

حکومت سچ کو نظرانداز کرنے میں مصروف ہے اور ان لوگوں کو خاموش کروانے کی کوشش کر رہی ہے جو اسے اجاگر کرتے ہیں اور اس تسلسل سے سچائی اور اختلاف رائے پر حملہ اگر روک نہ دیا گیا تو اس کے بھارت کی جمہوری اور قومی سیکیورٹی پر طویل المدتی اثرات ہوں گے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *