بھارت میں قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آپریشن سندور‘ کے بعد بھارت عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ اس فوجی کارروائی کے نتیجے میں خطے میں کشیدگی بڑھی ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھارت کو شدید سفارتی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت میں قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے کہا کہ مودی کی ’ذاتی سفارت کاری‘ کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ جیسے ہی بحران نے سر اٹھایا، بھارت کے کسی بھی قریبی اتحادی، امریکا، برطانیہ، فرانس، روس یا یورپی یونین نے کھل کر بھارت کی حمایت نہیں کی، جس سے بھارت کی خارجہ پالیسی کی اصل حیثیت سامنے آ گئی۔
قریبی دوست ممالک نے منہ پھیر لیا
آزاد ریسرچ رپورٹ کے مطابق ’ سالوں کی تصویری ملاقاتیں، بیرون ملک ریلیاں اور ’وشو گرو‘ جیسے نعرے اس وقت بے معنی ثابت ہوئے جب واقعی ضرورت پڑی، ’راہول گاندھی نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ’وہ ممالک جو کبھی قریبی دوست سمجھے جاتے تھے، اب محتاط یا غیر جانبدار رویہ اپنا رہے ہیں‘۔
رپورٹ کے مطابق بھارت کو سب سے بڑا سفارتی دھچکا اس وقت لگا جب امریکا نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کا سہرا اپنے سر لیا ، جسے کئی تجزیہ کاروں نے بھارت کی خودمختار علاقائی طاقت کے طور پر پوزیشن کو کمزور کرنے کے مترادف قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق قریبی چھوٹے ہمسایہ ممالک نے بھی خاموشی یا فاصلہ برقرار رکھا، جو اس بات کی علامت ہے کہ مودی کی جارحانہ اور تشہیری خارجہ پالیسی اعتماد پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سفارتی خیرسگالی ختم ہو چکی ہے اور بھارت ایک نازک موقع پر تنہا رہ گیا ہے۔
سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ’آپریشن سندور‘ نے صرف عسکری کمزوریوں کو ہی نہیں، بلکہ ایک ایسی خارجہ پالیسی کی قلعی بھی کھول دی ہے جو صرف دکھاوے پر مبنی تھی‘۔
راہول گاندھی کی یہ تنقید اس وسیع سیاسی بحث کا حصہ ہے جو مودی کی بین الاقوامی حکمت عملی پر ہو رہی ہے، خاص طور پر اس حکمت عملی پر جو عالمی رہنماؤں سے ذاتی تعلقات اور عوامی تقریبات پر مبنی تھی۔ بحران کے وقت کسی بڑے ملک کی غیر مشروط حمایت نہ ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ حکمت عملی الٹی پڑ گئی ہے۔
’آپریشن سندور‘ کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بھارت کو اب نہ صرف عسکری سطح پر بلکہ سفارتی محاذ پر بھی نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ حزب اختلاف حکومت سے جواب دہی کا مطالبہ کر رہی ہے اور خارجہ پالیسی پر جامع نظرثانی کی ضرورت پر زور دے رہی ہے۔