پاکستان نے زلزلہ زدہ افغانستان کے لیے 105 ٹن امدادی سامان روانہ کردیا، متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔
پاکستان نے افغانستان میں آنے والے شدید زلزلوں کے بعد 105 ٹن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سامان روانہ کر دیا۔ ان زلزلوں میں طالبان حکام کے مطابق اب تک کم از کم 1,469 افراد جاں بحق اور 3,700 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔
نائب وزیرِاعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے امدادی سامان کی روانگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ان کی افغان وزیر خارجہ امیر متقی سے ٹیلیفونک گفتگو کے بعد کیا گیا جس کے بعد پاکستان کی حکومت نے افغانستان کے لیے 105 ٹن امدادی سامان روانہ کیا ہے۔
امدادی سامان میں اشیائے خورونوش، ادویات، خیمے، کمبل اور ببل میٹس شامل ہیں، جو کہ متاثرہ علاقوں میں فوری ضرورت پوری کرنے کے لیے بھجوائے جا رہے ہیں۔
ادھر وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’ہم متاثرین کے لیے دلی ہمدردی اور دعائیں پیش کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے خواہاں ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان اس مشکل وقت میں افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے‘۔
Following my telephone call with Foreign Minister Muttaqi, the Government of Pakistan today dispatched 105 tons of humanitarian relief assistance to Afghanistan.
The consignment includes essential food items, medicines, tents, blankets, and bubble mats, aimed at supporting those…
یہ امدادی سامان 5 کنٹینرز پر مشتمل ٹرکوں کے ذریعے طورخم بارڈر سے افغانستان روانہ کیا جا رہا ہے۔ روانگی کی تقریب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اسلام آباد گودام میں منعقد ہوئی، جس میں وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور کھیل داس کوہستانی، این ڈی ایم اے اور وزارتِ خارجہ کے افسران نے شرکت کی۔
زمینی حالات سنگین، امدادی ٹیمیں مشکلات کا شکار
طالبان کے 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ تیسرا بڑا زلزلہ ہے، جس نے مشرقی افغانستان کے دور دراز علاقوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، جہاں ریسکیو ٹیمیں سڑکوں کی بندش اور مسلسل آفٹر شاکس کے باعث متاثرین تک پہنچنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
ہزاروں افراد اب بھی کھلے آسمان تلے بغیر کسی پناہ کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ زمین کھسکنے اور آفٹر شاکس کے باعث متاثرہ علاقوں تک رسائی محدود ہو چکی ہے۔
’ہر کوئی خوف زدہ ہے، مسلسل آفٹر شاکس آ رہے ہیں، ’ننگرہار کے گاؤں دارہ نور کے رہائشی اورنگزیب نوری نے اے ایف پی کو بتایا۔ ’ہم دن رات کھیتوں میں گزار رہے ہیں، ہمارے پاس کوئی پناہ نہیں‘۔
غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق ان کی ایک ٹیم کو طبی آلات پشت پر اٹھا کر مقامی افراد کی مدد سے 20 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے زلزلہ زدہ دیہاتوں تک پہنچنا پڑا۔
عالمی ادارہ خوراک نے تصاویر جاری کی ہیں جن میں امدادی کارکن پہاڑی راستوں پر خوراک کے ڈبے کندھوں پر اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
طالبان حکومت نے بھی ان علاقوں میں کمانڈو اہلکار ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بھیجے ہیں جہاں لینڈنگ ممکن نہیں، تاکہ ملبے تلے دبے افراد کو نکالا جا سکے۔
طالبان کے نائب ترجمان حمداللہ فطرت نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ابھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ امدادی کارروائیاں کب مکمل ہوں گی کیونکہ یہ علاقے بہت زیادہ پہاڑی ہیں اور ہر مقام تک پہنچنا انتہائی مشکل ہے‘۔
بین الاقوامی مدد کی اشد ضرورت
تنظیم ایکشن ایڈ کے مطابق 12,000 سے زیادہ افراد براہِ راست زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں، جبکہ خواتین اور بچیاں خاص طور پر خطرے سے دوچار ہیں کیونکہ طالبان حکومت کے تحت ان پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے ’ڈبلیو ایف پی‘ کے افغانستان میں سربراہ جان آئیلیئف نے متنبہ کیا ہے کہ اگر فوری فنڈنگ نہ ملی تو ان کے پاس صرف چار ہفتوں تک کے لیے خوراک موجود ہے۔ ’4 ہفتے ناکافی ہیں، نہ صرف متاثرہ افراد کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے، بلکہ انہیں زندگی کی بحالی کی راہ پر ڈالنے کے لیے بھی۔‘
’ڈبلیو ایف پی‘ کی افغانستان کے لیے فنڈنگ 2022 میں 1.7 ارب ڈالر تھی، جو اب کم ہو کر صرف 30 کروڑ ڈالر رہ گئی ہے، جس سے ادارے کی امدادی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
مقامی افراد کا جذبہ، عالمی بے حسی
محمد رحمان نامی شہری نے بتایا کہ جلال آباد کے شہریوں نے زلزلہ متاثرین کے لیے کمبل اور نقد رقم جمع کی۔ میں ایک عام مزدور ہوں، لیکن جب متاثرین کا حال سنا تو دل بہت دکھا، اس لیے مدد کے لیے آیا۔ اگر میرے پاس زیادہ ہوتا تو میں اور بھی دیتا، لیکن جو کچھ تھا، وہ دیا‘۔
افغانستان ایک بار پھر آزمائش کی گھڑی میں
جنگ، غربت اور عالمی مدد میں کمی کے باعث پہلے ہی مشکلات کا شکار 4 کروڑ 20 لاکھ آبادی والا افغانستان، اس زلزلے کے بعد ایک اور انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔
آفٹر شاکس کے باعث لوگ دوبارہ گھروں میں جانے سے ڈر رہے ہیں، جبکہ امداد کی اشد ضرورت برقرار ہے۔ اگر عالمی برادری نے فوری اور مؤثر اقدام نہ کیا تو خدشہ ہے کہ متاثرین زلزلے سے نہیں بلکہ بعد از زلزلہ حالات سے مزید جانیں گنوا سکتے ہیں۔