اڈیالہ جیل کے باہر علیمہ خان کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب صحافیوں نے ان سے سخت سوالات کیے، صحافی طیب بلوچ نے عمار سولنگی کی ٹویٹ میں لگائے گئے الزامات سے متعلق سوال کیا جس میں کہا گیا تھا کہ علیمہ خان نے چندے کے پیسوں سے ذاتی جائیداد خریدی تاہم علیمہ خان اس سوال کا جواب نہ دے سکیں اور بغیر وضاحت دیے گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئیں۔
اس موقع پر صحافیوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے سوال کا جواب نہیں دیا، طیب بلوچ کو دھمکیاں دی گئیں ، کیا سوال پوچھنا جرم ہے؟کیا آپ صرف اپنی مرضی کے سوالات کا جواب دیں گی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور دھمکیوں کا آرڈر کس نے دیا
بعدازاں علیمہ خان نے کہا کہ ہوا ضرور بدلی ہے، لوگوں کے موڈ اور غصے کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کس سمت جا رہا ہے، لوگ کھڑے ہو کر ظلم قبول کرنے کو تیار نہیں، پولیس اہلکار بھی ہم سے کہتے ہیں کہ وہ اس ظلم سے تنگ آ چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قوم کو سبق مل رہا ہے کہ جو کچھ عوام کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ناقابلِ قبول ہے۔ یہ سسٹم عوام کے لیے قابلِ برداشت نہیں رہا
علیمہ خان کا کہنا تھا کہ اس وقت جو ظلم پارٹی کے بانی کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ دراصل پوری قوم کے ساتھ ہے۔ بانی قوم کی آواز ہیں اگر ان کی آواز بند کی جا رہی ہے تو دراصل عوام کی آواز کو دبایا جا رہا ہے وہ رول آف لا اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں اور جمہوریت کا مطلب عوام کی آواز ہے۔