معروف دائیں بازو کے کارکن، مبصراور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی چارلی کرک یوٹاہ ویلی یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئے۔ ریاست کے گورنر اسپینسر کاکس نے اس واقعے کو ایک ’سیاسی قتل‘ قرار دیا ہے جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار تک سوگ کا اعلان کیا ہے۔
31 سالہ کرک دوپہر 12:20 بجے کے قریب ایک بڑی عوامی تقریب سے خطاب کر رہے تھے جب اچانک ایک گولی چلنے کی آواز آئی۔ موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گولی لگنے کے بعد کرک نے اپنے گلے کو پکڑا اور کرسی سے نیچے گر گئے، جس پر حاضرین میں بھگدڑ مچ گئی۔ گولی لگنے کے فوراً بعد ان کے گلے سے خون بہتا ہوا دکھائی دیا۔ پولیس نے تصدیق کی کہ کرک موقع پر ہی دم توڑ گئے۔
حکام کے مطابق حملہ آور نے ایک عمارت کی چھت سے کافی فاصلے سے فائر کیا۔ شوٹر اب بھی مفرور ہے۔ ایف بی آئی ڈائریکٹر کاش پٹیل کے مطابق، ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی لیکن بعد میں رہا کر دیا گیا۔ تحقیقات اب بھی جاری ہیں۔
گورنر اسپینسر کاکس نے کہا کہ ’ یہ ہمارے ریاست کے لیے ایک سیاہ دن ہے، اور قوم کے لیے ایک المیہ ہے۔ میں بالکل واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک سیاسی قتل ہے‘۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کرک سے ایک سامع نے امریکی معاشرے میں بندوقوں کے بڑھتے ہوئے تشدد پر سوال کیا۔ کرک نے جواب میں کہا کہ ’ گینگ وائلنس کو شامل کر کے یا نکال کر؟ اور وہ اسی لمحے گولی کا نشانہ بن گئے۔
کرک کا یہ خطاب ان کی ’امریکن کم بیک ٹور‘ کا پہلا ایونٹ تھا، جس میں وہ ملک بھر کی 15 یونیورسٹیوں میں خطاب کرنے والے تھے۔ کرک ایسے مواقع پر سامعین کو براہِ راست مباحثے کی دعوت دیتے تھے۔
ٹرمپ کا اتوار تک سوگ کا اعلان
صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو کرک کے قریبی ساتھی تھے، نے ان کی موت پر پورے امریکا میں سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم اتوار تک سرنگوں رکھنے کا حکم دیا۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ ’ عظیم اور لیجنڈری چارلی کرک اب ہم میں نہیں رہے۔ امریکا کی نوجوان نسل کے دل کی دھڑکن کو کوئی اتنی خوبی سے نہیں سمجھتا تھا جتنا چارلی۔ وہ سب کا پسندیدہ تھا، خاص طور پر میرا اور آج وہ ہمیں چھوڑ گیا ہے‘۔
نوجوان ووٹروں میں مقبول
چارلی کرک ’ٹرننگ پوائنٹ یو ایس اے‘ کے شریک بانی تھے، جو ملک کی سب سے بڑی قدامت پسند طلبا تنظیم ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی 2024 کی انتخابی مہم میں نوجوان اور اقلیتی ووٹروں کو متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ٹرمپ نے دسمبر میں ایک ریلی کے دوران کہا تھا کہ ’ یہ میری نہیں، ٹرننگ پوائنٹ کی فتح ہے‘۔ کرک کے پوڈکاسٹ ’دی چارلی کرک شو‘ کو لاکھوں افراد سنتے تھے اور ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر 5.3 ملین فالوورز تھے۔ وہ اکثر فاکس نیوز پر مہمان کے طور پر اور ’فاکس اینڈ فرینڈز‘ پر شریک میزبان کے طور پر بھی نمودار ہوتے تھے۔ ان کا انداز اکثر اشتعال انگیز ہوتا اور وہ نسل، جنس اور امیگریشن جیسے حساس موضوعات پر کھل کر اظہارِ خیال کرتے تھے۔ وہ شادی شدہ تھے اور ان کے 2 چھوٹے بچے ہیں۔
امریکا میں سیاسی تشدد میں اضافہ
چارلی کرک کا قتل ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکا میں سیاسی تشدد میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل حملے کے بعد سے اب تک 300 سے زیادہ سیاسی بنیادوں پر پرتشدد واقعات ہو چکے ہیں۔
ان واقعات میں جولائی 2024 میں پنسلوانیا میں ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ، اپریل میں پنسلوانیا کے گورنر جوش شاپیرو کے گھر پر آتشزدگی کا حملہ، منی سوٹا میں ریاستی قانون ساز ملیسا ہورٹمن اور ان کے شوہر کا قتل، جب کہ سینیٹر جان ہوفمین اور ان کی اہلیہ کو گولی مار دی گئی، شامل ہیں۔
کولوراڈو کے شہر بولڈر میں اسرائیلی یرغمالیوں کے حق میں ہونے والی تقریب پر فلیم تھروئر اور مولوتوف کاک ٹیل سے حملہ، جس میں ایک خاتون ہلاک اور 6 زخمی ہوئے،2022 میں نینسی پیلوسی کے گھر پر حملہ، جس میں ان کے شوہر شدید زخمی ہوئے، ریپبلکن اور ڈیموکریٹ رہنماؤں نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
نائب صدر جے ڈی وینس، جو کرک کے قریبی دوست تھے، نے لکھا کہ ’ اے خدا، انہیں ابدی سکون عطا فرما‘۔ ڈیموکریٹ رہنما حکیم جیفریز نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ چارلی کرک کے قتل پر مجھے گہرا صدمہ ہے۔ سیاسی تشدد کسی بھی شکل میں ناقابل قبول ہے۔ ہم ان کے اہل خانہ کے لیے دعاگو ہیں‘۔