جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکے جانے کا حکم معطل

جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکے جانے کا حکم معطل

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عدالتی امور سے روکنے کے احکامات کو معطل کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم آئینی بینچ نے پیر کوسنایا، جو جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کر رہا تھا۔

سپریم کورٹ نے اپنے عبوری حکم میں کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا وہ فیصلہ جس کے تحت جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکا گیا، فی الحال معطل کیا جاتا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور درخواست گزار میاں داؤد کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت میں تحریری جوابات طلب کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:جامعہ کراچی نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری منسوخ کر دی

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے حال ہی میں ایک درخواست پر عبوری حکم جاری کرتے ہوئے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عدالتی امور انجام دینے سے روک دیا تھا۔ یہ درخواست ان کی بطور جج تقرری کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کی گئی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان کی تعیناتی آئین اور ضابطوں کے خلاف کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس سمن رفعت کے ہمراہ پیشی کے دوران جسٹس طارق جہانگیری نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات پر افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ 34 سال بعد میری ڈگری منسوخ کی جا رہی ہے — یہ دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا‘۔ جب ایک صحافی نے ان سے استعفے کی افواہوں کے بارے میں سوال کیا تو جسٹس جہانگیری نے مختصر جواب دیا تھا کہ ’اللہ خیر کرے‘۔

جعلی ڈگری کے الزامات

یہ تنازع جولائی 2024 سے شروع ہوا، جب جامعہ کراچی نے ایک سلسلہ وار سرکاری خطوط میں جسٹس جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری کو مبینہ طور پر جعلی قرار دیا۔

یونیورسٹی ریکارڈ کے مطابق 1989 میں، جہانگیری نے ایل ایل بی پارٹ ون کے امتحان میں بطور ’طارق جہانگیری ولد محمد اکرم‘انرولمنٹ نمبر AIL 5968 کے تحت شرکت کی، ۔

1991 میں انہوں نے ایل ایل بی پارٹ ٹو پاس کیا، انرولمنٹ نمبر AIL 7124/87 کے تحت، بطور “طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم‘۔

تاہم، حکام نے انکشاف کیا کہ انرولمنٹ نمبر AIL 5968 دراصل ایک اور طالب علم، امتیاز احمد کو جاری کیا گیا تھا، جس سے جسٹس جہانگیری کی تعلیمی اسناد پر سنگین شکوک پیدا ہو گئے ہیں۔

درخواست گزار میاں داؤد کا مؤقف ہے کہ جسٹس طارق محمود کی تقرری میں میرٹ، شفافیت اور قانون کی مکمل پیروی نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی اور شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے اس معاملے پر کھلی عدالت میں سماعت ضروری ہے۔

دوسری جانب، سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ہائیکورٹ کا حکم آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور جج کو اس انداز میں کام سے نہیں روکا جا سکتا، جب تک کہ سپریم جوڈیشل کونسل یا کوئی متعلقہ فورم اس پر حتمی فیصلہ نہ دے۔

مزید پڑھیں:جعلی ڈگری کیس، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا گیا

سپریم کورٹ کے اس عبوری حکم سے جسٹس طارق محمود ایک بار پھر اپنے عدالتی فرائض انجام دے سکیں گے، جب تک کہ کیس کی حتمی سماعت مکمل نہیں ہو جاتی۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے عدلیہ کے اندرونی معاملات میں توازن اور ضابطہ اخلاق کے اطلاق پر ایک اہم مثال قائم ہو سکتی ہے۔ مزید سماعت کی تاریخ جلد مقرر کی جائے گی اور قانونی حلقے اس معاملے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *